وزیر خزانہ کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی نے پانچ وفاقی وزارتوں میں اصلاحات کی سفارش پر مشتمل رپورٹ وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کر دی ہے۔کمیٹی کا کہنا ہے کہ ملک کو لاحق مالیاتی بحران کی ایک بڑی وجہ سرکاری اداروں و وزارتوں میں موجود خرابیاں ہیں جو اخراجات میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ان خرابیوں کو بیڈ گورننس کی ذیل میں رکھا گیا ہے۔کمیٹی کا خیال ہے کہ بد انتظامی دور کر کے سرکاری خزانے کی بچت کی جا سکتی ہے۔ ریاستی مشینری کو بہتر بنانے اور انتظامی اخراجات کو کم کرنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر، پانچ وزارتوں کے 28 محکموں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پانچ وزارتوں امور کشمیر اور گلگت بلتستان، ریاستیں اور سرحدی علاقہ جات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن، صنعت و پیداوار اور نیشنل ہیلتھ سروسز میں اصلاحات پر بریفنگ دی گئی۔اجلاس میں وزارت امور کشمیر اور گلگت بلتستان کو ریاستوں اور سرحدی علاقوں میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ یہ سفارش کی گئی تھی کہ ان پانچ وزارتوں کے تحت 28 اداروں کو یا تو مکمل طور پر بند کر دیا جائے، پرائیویٹائز کر دیا جائے یا وفاقی اکائیوں کو منتقل کر دیا جائے۔ ان پانچ وزارتوں کے اندر 12 اداروں کو اصلاحات کے ذریعے مضبوط کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ اس تجویز کو منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کیا جائے اور اس پر عملدرآمد کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا جائے۔وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ حکومت کی ادارہ جاتی اصلاحات کا مقصد قومی خزانے پر بوجھ کو کم کرنا اور عوام کو فراہم کی جانے والی خدمات کا معیار بہتر بنانا ہے۔یہ مطالبہ برسوں سے کیا جا رہا ہے کہ جن ریاستی اداروں نے عوامی خدمت کے حوالے سے خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی اور وہ قومی خزانے پر بوجھ ہیں انہیں فوری طور پر بند کیا جائے یا ان کی فوری نجکاری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔وزیراعظم ذاتی طور پر سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی نگرانی کرنے کا کہہ رہے ہیں، جس کا مقصد ایس ایم ای سیکٹر میں کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اس اتھارٹی کو وزیراعظم آفس کے تحت لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔اصلاحاتی کمیٹی نے تقریبا 150,000 خالی آسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی ، صفائی اور چوکیدارانہ خدمات جیسے غیر بنیادی کاموں کو آوٹ سورس کرنے کی تجویز پیش کی ہے، جس کے نتیجے میں گریڈ 1 سے 16 میں مختلف آسامیوں کو بتدریج ختم کیا جائے گا۔کمیٹی نے ہنگامی آسامیوں پر بھرتیوں پر مکمل پابندی اور وزارتوں کے کیش بیلنس پر وزارت خزانہ کی نگرانی کی بھی سفارش کی ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں بنیادی تبدیلی اس کے آس پاس کی ہر چیز پر بہت زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ جانوروں کی قدرتی رہائش گاہوں میں انسانی تجاوزات کی مثال لیں۔ جنگل میں ترقی، درختوں کو کاٹ کر اور عمارت کی تعمیر سے، جانوروں کے روئیے متاثر ہوتے ہیں۔تبدیلی خود کو معاشرے کے تانے بانے میں سرایت کرلیتی ہے، جس سے رویے کے نمونے تیار ہوتے ہیں۔ یہی نظریہ اس معاملے کے لیے معاشیات، سیاست یا زندگی کے کسی اور شعبے پر لاگو ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں ہمیں ادارہ جاتی تبدیلی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔پاکستان بننے کے وقت کی ضروریات مختلف تھیں۔آئین نے وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات بانٹ دیئے ہیں۔معاشی اور مالیاتی ضابطے سماجی اور انتظامی روایات سے متاثر ہو رہے ہیں ۔ساری دنیا انسانی جنگل کو گڈ گورننس سے مہذب اور شعوری نظام میں بدل رہی ہے ،ایک پاکستان ہے جہاں سرکاری ادارے سیاسی ملازمتیں دینے یا من پسند افراد کی منافع بخش کھپت کا ذریعہ بنائے گئے۔ہمارے اداروں کی اصلاح کا پہلا اور سب سے اہم قدم یہ تسلیم کرنا ہے کہ مسئلہ درحقیقت ادارہ جاتی نوعیت کا ہے۔پاکستان میں حکمرانی و معاشی پریشانیوں کی وضاحت کے لیے کئی برسوں کے دوران متعدد بیانیے بنائے گئے ہیں۔سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین بتاتے ہیں کہ کس طرح سکیورٹی اور دہشت گردی، غیر ملکی امداد کی آمد، آمرانہ حکمرانی کی ترجیحات، بیرونی اقتصادی ماحول اور عوامی اخراجات کی تبدیلی جیسے عوامل کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ حالیہ دہائیوں میں پاکستان کی معاشی بدحالی کی وضاحت کے لیے ان ہی امور پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق خرابیوں کی اس پہیلی کا جواب حکمرانی کے اداروں میں ہے۔گورننس کا براہ راست تعلق اداروں سے ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک تحقیق میںگورننس کی تعریف “ریاست کے وسائل کے انتظام میں رسمی اور غیر رسمی اداروں کے ذریعے اختیار کے استعمال کے تمام پہلووں” کے طور پر کی گئی ہے۔اس لیے کمزور ادارے خراب طرز حکمرانی کا باعث بنتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشی ترقی نہیں ہو پاتی۔ آئی ایم ایف کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ گورننس کا جی ڈی پی اور فی کس آمدنی پر شماریاتی طور پر اہم اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ معاشی اور سماجی اصلاحات کااس وقت تک مطلوبہ اثر نہیں ہوگا جب تک کہ ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہوں۔ رواں برس انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں ملک کی معاشی حالت پر بات کرتے ہوئے کئی ممبران نے وفاق اور صوبوں میں ایک ہی نوع کا کام کرنے والی الگ الگ وزارتوں کو ختم کرنے کی تجویز دی تھی۔ گڈ گورننس کا مطالبہ کیا گیا،خسارے والے اداروں کی نجکاری کا کہا گیا۔وزیر خزانہ کی پیش کردہ سفارشات پارلیمنٹ کے ان مطالبات کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہیں۔ان سفارشات پر عمل ہو سکا تو ملک میں گڈ گورننس کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔
٭٭٭