حضرتِ انسان، صدیوں سے کائنات کی وسعتوں کی حدود تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ اس تلاش کے دوران، ہزارہا ایجادات بھی ہوئیں۔ کروڑوں کہکشائیں بھی دریافت ہوئیں۔ تیز رفتاری کے بھی کئی ریکارڈ بنے۔ اس سب کچھ کے باوجود کائنات کی وسعت اور اسکی بے پناہ خوبصورتی کا احاطہ اور اندازہ آج تک نہیں ہو سکا لیکن اللہ رب العالمین کی عظیم ذات نے انسان کو الہامی علم کے ذریعے یہ ضرور بتا دیا کہ اس وسیع و عریض کائنات کیلئے رحم لِلعالمین کونسی ہستی ہے۔ پیغمبرِ انقلاب ۖ جنہوں نے مختصر سے عرصے میں نہ صرف عام آدمی کو اشرافیہ کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا نسخہ کیمیا بتا دیا بلکہ عملی طور پر اس کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ریاستِ مدینہ کی بنیاد بھی ڈال دی۔ربیع الاول کے یہ مبارک دن ہمیں اس پاک ہستی ۖ کی یاد دلاتے ہیں اور کروڑوں لوگ، فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے پیارے نبی ۖ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیرتِ پاک کے جلسے اور محفلیں انتہائی متاثر کن انداز سے منعقد کی جا رہی ہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ!
از در مہا نام شاہاں بر کنند
نامِ احمد تا قیامت میز نند
یعنی بادشاہوں کے نام تو سِکوں سے مٹائے جاسکتے ہیں لیکن احمد ۖ کا نامِ نامی، تاقیامت نقش رہے گا۔ ظاہر ہے جس کے ذکر کو رب العالمین نے خود بلند کیا ہو، اسے کون نیچا دکھا سکتا ہے۔ علامہ اقبال کے یہ اشعار، اسی حقیقت کو بہت خوبصورتی سے آشکار کرتے ہیں۔
دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رفعنا لک ذِکرک دیکھے
پیغمبر ِاسلام ۖ کی امت میں بفضلِ تعالیٰ، مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں آپ ۖ پر درود و سلام بھیجنے والے موجود ہیں۔ رسول اللہ ۖ پر ایمان لائے بغیر دینِ حق میں داخلہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ انہی کے ذریعے ہی تو یہ دینِ اسلام ہم تک پہنچا ہے۔ صداقت و امانت کے پیکر بن کر انہوں نے بہت ساری تکالیف اٹھائیں اور اللہ کی وحدانیت کا پیغام ہم تک پہنچایا۔ شعیبِ ابی طالب اور وادی طائف کی گھاٹیوں سے گزرے۔ بدر، احد اور خندق جیسی جنگیں لڑیں۔ اندرونی اور بیرونی سازشوں سے نبرد آزما ہوئے۔ غرض ہر محاذ پر باطل قوتوں کا خوب اچھے طریقے سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی اُمت کو امن و سلامتی کا ایسا راستہ دکھایا کہ صدیوں بعد بھی وہی راستہ ہی برحق راستہ ہے۔ باقی سب باطل ہے۔
ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم نبی اکرم ۖ کی ذاتِ بابرکات کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اطاعت و اتباعِ رسول ۖ میں بھی انتہائی آخری حدود کو چھونا ضروری ہے۔ اُ متِ مسلمہ کی مائیں یہ سبق اپنے بچوں کو انکی گھٹی میں ہی گھول کر پلا دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے مسلم اُمہ کا ہر فرد اپنے جان سے بھی پیارے نبی ۖ کی عزت و ناموس پر ہر وقت کٹ مرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ غیر مسلموں کو یہ بات سمجھانا کافی مشکل کام ہے لیکن ہم میں سے ہر کسی کا فرض ہے کہ یہ پیغام پوری دنیا کے ہر فرد تک ضرور پہنچائیں۔ اسی لئے تو علامہ اقبال مسلمانوں کو نصیحت فرما گئے ہیں کہ:
مثلِ بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنِستاں ہوجا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہوجا
نغم موج سے ہنگام طوفاں ہوجا
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے
آج کی دنیا میں ہر طرف ہیجان اور پریشانی کا دور دورہ ہے۔ پیغامِ محمدی ۖ سے روگردانی کی وجہ سے بحر و بر میں ہر طرف فساد پھیلا ہوا ہے۔ غریب اور مظلوم کی زندگی بڑی تلخ کر دی گئی ہے۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ خاندان کی اکائی تباہی کی جانب گامزن ہے۔ معاشرتی مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے۔سیرتِ رسول ۖ سے روگردانی کرنے کے نتائج، ساری دنیا بھگت رہی ہے۔ رحمت للعالمین بنا کر بھیجے جانے والے رسول ۖ کی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے، ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ علامہ اقبال نے تو یاد دہانی کرائی تھی مگر یہاں سنتا کون ہے؟
بمصطفے برساں خویش را کہ دیں ہمہ است
اگر بہ او نر سیدی تمام بو لہبی است
ہمارے پیارے نبی اکرم ۖ نے جو معاشرت مدینہ میں قائم کی تھی وہ عفو و درگزر کی انتہاء بلندیوں کو چھوتی تھی۔ پیغمبر ۖ اپنے ہر صحابی کو زیادہ سے زیادہ معاف کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی کاروبار کرنے والے صحابی (رض)نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ۖ، میرے بہت سے ملازمین ہیں اور ہر وقت کوئی نہ کوئی غلطی کرتے رہتے ہیں۔ آخر میں انہیں کہاں تک معاف کروں؟ رحم لِلعالمین ۖ نے بھی کیا خوبصورت جواب دیا۔ فرمایا، اے بندہ خدا، جتنی مرتبہ تم چاہتے ہوکہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے، اتنی مرتبہ تم بھی اپنے ملازمین کو معافی دو۔ اسی لئے تو فرمانِ ربِ تعالیٰ ہے کہ وما ارسلنا اِلا رحم لِلعالمین۔ یعنی اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ہر انسان اور دیگر تمام مخلوقات کیلئے بھی رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ مولانا حالی نے کیا خوبصورت نعت کہی ہے۔وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والامرادیں غریبوں کی بر لانے والا،مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا،وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا،فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماوںیتیموں کا والی غلاموں کا مولا،خطا کا ر سے درگزر کرنے والا،بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا،مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا،قبائل کو شیر و شکر کرنے والا۔
٭٭٭