ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگوں اور تنازعات اور کبھی کبھار ملاقاتوں کے تعطل کے باوجود، انڈس واٹر کمیشن ایک مستقل بنیاد رہا ہے۔ بھارت کا موقف ہے اگر معاہدے پرحکومتی سطح کے مذاکرات دوبار ہ شروع ہوتے ہیں تو ہندوستان خیرسگالی اقدام کے طور پر کمیشن کو بحال کرنے پر غور کر سکتا ہے۔اس معاہدے کے تحت بیاس، راوی اور ستلج یا مشرقی دریاوں کا پانی بھارت اور تین مغربی دریاوں چناب، سندھ اور جہلم کا پانی پاکستان کو دیا گیا۔ بھارت آبی دہشت گردی پر تل گیا اور انڈس واٹر کمیشن کے مذاکرات ختم کردیے ہیں۔بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق مستقل انڈس واٹر کمیشن کے مزید اجلاس اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں 64 سال پرانے سندھ طاس معاہدے پر دوبارہ بات چیت نہیں کرتیں۔ انڈس واٹر کمیشن کا آخری اجلاس مئی 2022 میں دہلی میں ہوا تھا۔ دریا ئوں کے پانی کی تقسیم، ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر اور دریاوں کے ماحولیاتی پہلووں سے متعلق ڈیٹاشیئرنگ پر بات چیت اور اختلافات حل کرنے کیلئے دونوں ممالک کے کمشنروں کو ہر سال ملاقات کرنے کا پابند کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی سال میں کئی بار ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ یہ معاہدہ بھارت کو مغربی دریاوں کو محدود آبپاشی کے مقاصد اور بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ وادی سندھ کے دریاوں کے پانی کی تقسیم سے متعلق جنوبی ایشیا کے سب سے قدیم اور طویل عرصے تک قائم رہنے والے بین الاقوامی سندھ طاس معاہدے کے مستقبل پر سنگین سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے اس معاہدے کی شرائط میں بڑی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے۔بھارت اور پاکستان نے 1960 میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ)کہا جاتا ہے۔ ورلڈ بینک نے اس معاہدے پر دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کیا اور اس نے تیسرے فریق کے طور پر معاہدے پر دستخط بھی کر رکھے ہیں۔اس معاہدے کا بنیادی مقصد وادی سندھ کے دریاوں کے پانی کو دونوں ممالک کے درمیان منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنا تھا۔سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارت کا موقف تھا کہ معاہدے پر عمل درآمد میں کسی تنازعے کی صورت میں اسے مذاکرات یا مرحلہ وار انداز کے ذریعے حل کرنا ہو گا۔ دوسری جانب پاکستان ثالثی عدالت کے سامنے کسی تیسرے ملک سے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے حق میں تھا۔بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کیلئے بھارت نے رواں سال 30 اگست کو پاکستان کو باضابطہ نوٹس بھجوا دیا۔ سندھ طاس معاہدے کی شق 12 کی ذیلی شق تین کے تحت بھارت اور پاکستان معاہدے میں متفقہ طور پر ترامیم کر سکتے ہیں۔بھارت نے مختلف بے بنیاد وجوہات کوبہانہ بنا کر پاکستان کوسندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کا نوٹس دیا ہے۔ بھارتی موقف کے مطابق1960 سے ابتک آبادی کے تناسب میں تبدیلی اوراس سے جڑے زرعی مقاصد سمیت پانی کے استعمال کی صورتحال میں خاصی تبدیلی آ چکی ہے ، پاکستانی دریاوں پر پن بجلی اور آبی ذخائر کے منصوبوں کی تعمیر میں موجودہ معاہدے سے مدد نہیں مل رہی۔بھارت نے لائن آف کنٹرول پر مبینہ دراندازی اور دہشتگردی کو بھی سندھ طاس معاہدے سے جوڑ دیا۔بھارت کا کہنا ہے لائن آف کنٹرول پر مبینہ دہشتگردی اور در اندازی کے باعث اپنے حصے کا پانی بھی استعمال نہیں کر پا رہے۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں متنازعہ بھارتی آبی منصوبوں پرعالمی ثالثی عدالت میں مقدمہ کر رکھا ہے۔ مودی سرکار سندھ طاس معاہدے پرمذموم ارادے کی تکمیل کیلئے لوک سبھا میں بل بھی پیش کرچکی ہے۔آبی ماہرین سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کو پاکستان کیلئے زہرقاتل قراردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کو کسی بھی صورت سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہاہے سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اہم معاہدہ ہے ، پاکستان سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کرنے کی پابندی کررہا ہے۔ ہندوستان کے سندھ طاس معاہدہ پر پاکستان کو نوٹس جاری کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہمیں یقین ہے ابھی ایسا نہیں ہوا،پاکستان سندھ طاس معاہدے کو پاکستان اور بھارت دونوں کیلئے مانتا ہے۔ ،یہ معاملہ ہمارے لئے قومی اہمیت کا حامل ہے ،ہم اپنے مفادات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ پاکستان سندھ طاس معاہدے کو پاکستان اور بھارت دونوں کیلئے اہم سمجھتا ہے ،بھارت کو سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں پاکستان سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کرنے کی پابندی کررہا ہے ، ہندوستان سے امید رکھتے ہیں وہ بھی معاہدے کی پابندی کرے گا۔ پاکستان اس کے مکمل نفاذ کیلئے پرعزم ہے اور ہم امید کرتے ہیں ہندوستان بھی سندھ طاس معاہدے کی تمام متعلقہ شقوں کی تعمیل کرے گا۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر ازسر نو غور کے حوالے سے پاکستان کو باضابطہ آگاہ نہیں کیاگیا۔ جب اس سلسلے میں معاملہ سامنے آئے گا تو اسے دیکھا جائے گا ، اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں چھپنے والی خبروں کو دیکھا ہے۔ پاکستان اس سلسلے میں اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کریگا۔
٭٭٭