سیدمودودی : وہ اک شجر تھا مثلِ طوبی !!!

0
5

یہ ستمبر کی بات ہے، میں اپنی انیسویں سالگرہ سے صرف چند ہفتوں کے فاصلے پہ تھا اور ایف ایس سی مکمل کر کے، انجنئیرنگ یونیورسٹی میں داخلے اور کلاسز شروع ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ مجھے اپنے سید اور مرشد، مولانا سید ابولاعلی مودودی کی رحلت کی اندوہناک خبر ملی۔ کالج سے فراغت اور یونیورسٹی میں داخلے کے درمیان کے یہ کچھ دن گزارنے کیلئے اپنے آبائی گائوں، گوٹھ خانزمان میں مقیم تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ابو، امی کا پیار، دودھ، دہی، لسی اور مختلف انواع کے پراٹھے، سب کچھ میسر تھا۔ ابا جان نے صوبہ سندھ کے اس دور افتادہ گائوں میں ایک بہت اعلیٰ معیار کی لائبریری بھی قائم کر رکھی تھی۔ اردو ادب کے بہت سے شہ پاروں سے میں نے اسی اپنے گھر کی لائبریری میں استفادہ کیا تھا۔ قرآن و حدیث، اقبالیات، اسلامی لٹریچر، میر و غالب، فیض و جوش، وارث شاہ و سلطان باہو، بھٹائی و سچل سرمست، مفتوں و شورش تو تھے ہی لیکن مولانا مودودی و مولانا اصلاحی کی کتابوں کے تو مکمل سیٹ یہاں موجود تھے۔ قرآن و حدیث کی تفاسیر و تشریحات بھی بڑے اہتمام سے شامل لائبریری تھیں۔ حالاتِ حاضرہ جاننے کے لئے ڈان اور جنگ جیسے اخبارات اور اردو و سیارہ جیسے ڈائجسٹ بھی باقاعدگی سے منگوائے جاتے تھے۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ جاتی تھی، وہ میرے پیارے ماموں (جو بعد میں میرے سسر بھی بنے) سب رنگ جیسے رسالے، عمران سیریز اور نسیم حجازی کے ناولوں سے پوری کر دیتے تھے۔نوجوانی کے اس دور میں، میرے سید اور مرشد، مولانا سید ابولاعلی مودودی بن چکے تھے، جن کی معرک الآرا تحریروں نے میرے اندر کی دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ ان کی کتابیں بار بار پڑھ کر بھی کبھی دل نہیں اُکتاتا تھا۔ دینیات، خطبات، شہادتِ حق، بنا اور بگاڑ اور سلامتی کا راستہ جیسے کتابچے ہوں یا تنقیحات، تفہیمات، تحریکِ آزادیِ ہند، خلافت و ملوکیت اور پردہ جیسی تصانیف، پڑھنے والوں کی زندگیاں تبدیل کردیتی تھیں۔ ذہن سازی کا یہ مثر انداز، دنیا میں بہت کم لوگوں کے ہاں ہی ملتا ہے۔خیر بات ہورہی تھی، ستمبر کے اس دن کی، جب ہمیں صوبہ سندھ کے اس دور افتادہ گائوں میں مولانا محترم کی رحلت کی اطلاع ملی۔ ہم اپنے گائوں میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ میرا خیال ہے ماموں جان ہمارے امیدوار تھے۔ اس غمناک خبر کے ملنے کے بعد چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پولنگ تھی۔ جماعت اسلامی کے نظم نے ہدایت دی کہ انتخابات بہت اہم ہیں، اس لئے لاہور جا کر جنازے میں شرکت کی بجائے کارکنان پولنگ اسٹیشنز پر ڈیوٹی دیں۔ اچھا زمانہ تھا، تمام کارکنان نے اطاعتِ نظم میں، یہیں اپنے مقامات پر رہ کر انتخابی فرائض انجام دئیے ۔ دل تو بڑا دکھی تھا۔ مولانا محترم کے آخری سفر میں شرکت سے محرومی رہی لیکن حکمِ ناظم، مرگِ مفاجات ہی ہوتا تھا۔ آج کل تو کوئی کام نہ کرنا ہو تو ہم لوگ اس قسم کی تاویلیں نکال لاتے ہیں کہ امیرِ محترم بھی اس کام سے باز آجاتے ہیں۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہوں تو انٹرنیٹ کے وکی پیڈیا پیج پر ، تمام تفصیلات موجود ہیں۔ میری یہ معروضات تو صرف میرے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں، جو حقیقت سے زیادہ جذبات کی دنیا کی نمائندگی کرتی ہیں۔ روایتی علوم کی درجہ بندی میں تو علمائے دیوبند و الازہر اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے نابغ روزگار، مولانا مودودی سے شاید کچھ آگے نظر آئیں گے لیکن عوام میں مقبولیت، نوجوانوں کی ذہن سازی اور عصرِ حاضر کی سیاست پر مثبت اثرات، مولانا محترم کی اقامت کو بہت بلند کر دیتے ہیں۔ سیکولرزم کے نام پر پھیلائے جانے والی لادینیت کو جس طرح مولانا محترم نے چیلنج کیا، اس کا مقابلہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کے جملہ کو قبولیت کی انتہا تک پہنچانے میں سید مودودی کے لازوال کردار کو نظر انداز کرنا بالکل ناممکن ہے۔ نظر لکھنوی صاحب نے کیا خوب کہا کہ
اے ابو الاعلی خدا بخشے تجھے عمرِ طویل
رہبرِ اُمت ہے تو اللہ کی نعمت ہے تو
بارک اللہ و جزاک اللہ کہتا ہے نظر
ملک و ملت کے لئے سب سے بڑی حاجت ہے تو
میری زندگی کے چند اہم ترین واقعات میں سے ایک اپنے سیدی اور مرشدی سے بالمشافہ ملاقات بھی ہے۔ نواب شاہ (سندھ)کی رہائش کے دوران، ہم چند طلبا، اسلامی جمعیت طلبہ کے کسی اجتماع کے سلسلے میں لاہور گئے تو مولانا محترم کو دیکھنے کے شوق میں، انکی رہائش گاہ، اچھرہ جاکر ان کے ساتھ نمازِ عصر پڑھی۔ نماز ادا کرنے کے بعد جب وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگے تو وہاں موجود محترم سلطان احمد صاحب مرحوم نے ان سے درخواست کی کہ چند طلبا دوردراز کا سفر طے کر کے آئے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں۔ گھٹنے کی تکلیف کے باوجود مولانا محترم ٹھہر گئے۔ ہم سب نے باری باری مصافحہ کیا۔ میری باری آئی تو ان کا ہاتھ تھام کر دعا کی درخواست کی۔ مولانا محترم نے میرے کان کے بالکل قریب آکر خصوصی دعا کی۔ فرطِ جذبات کا یہ عالم تھا کہ میرے لئے ان کے تھامے ہوئے ہاتھ کو چھوڑنا مشکل ہو رہا تھا۔ بالآخر انتظار کرنے والے اپنے دوسرے ساتھیوں کے حق میں مولانا محترم کو خدا حافظ کہنا پڑا۔ ان کے ساتھ اس مصافحہ کا لمس آج پینتالیس سال بعد بھی محسوس کرتا ہوں تو بدن میں جھرجھری سی محسوس ہوتی ہے۔سید ابوالاعلی مودودی کے ساتھ ایک تعارف اور تعلق تو ان کی کتابوں کے مطالعے کے ذریعے پاکستان میں بنا لیکن دوسرا تعارف و تعلق، مولانا محمد یوسف اصلاحی کے ذریعے امریکہ کی رہائش کے دوران وجود میں آیا۔ سے لیکر تک، مولانا اصلاحی صاحب کی خدمت کرنے کا بھرپور موقع ملا تو انہوں نے تسلسل کے ساتھ سید مودودی کی تحریروں کی تلخیص مجھ ناچیز تک پہنچائی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here