قارئین وطن! ابھی پاکستان قیام کے دوران کچھ ایپیسوڈ اور باقی ہیں لیکن اس سے پہلے میرا دماغ کل سے چکرا رہا ہے، بھارت کے پرائم منسٹر نریندر مودی اور امریکن صدر ڈونلڈٹرمپ کی پریس کانفرس میں مودی صاحب کی گونج چار لفظوں پر بڑا زور دے کر بتا رہا تھا MIGA MAKE INDIA GREAT AGAIN پھر بڑے تمسکرانہ انداز میں ٹرمپ کو خوش کرنے کے لئے ٹرمپ کے انداز میں MAGA MAKE AMERICA GREAT AGAIN مجھے نریندر مودی کی گونج میں ایک طنز محسوس ہوئی کہ کاش کروڑ پاکستانیوں میں بھی کوئی اُٹھ کر چلا چلا کر کہتا MPGA MAKE PAKISTAN GREAT AGAIN لیکن بدقسمتی سے ہمارا پالا وطن عزیز کو گدھوں کے حوالے کیا ہے جو اس کو گریٹ کیا بناتے وہ تو اس کو نوچ نوچ کر کھا گئے ہیں میں میاں بل گیٹ صاحب سے مودی کی میک انڈیا گریٹ اگین پر تبصرہ کر رہا تھا انہوں نے میری توجہ اس موضوع پر دلوائی کہ دیکھیں لڑاکہ طیاروں اور منوں بھر اسلحہ خریدا گیا امریکہ سے لیکن کوئی جرنل ڈیل کرنے کے لئے ساتھ نہیں آیا اور ہمارے یہاں تو جرنلز کے بغیر کوئی ڈیل مکمل ہی نہیں ہوتی لہٰذا اس ملک میں رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں دوزخ میں جائیں گے لیکن اس کی پرواہ اپنے ملک کو گریٹ بنانے والوں کو ہوتی ہے ہمیں بھکاری بنانے والوں کو نہیں میں اسی خیال کو لیتا ہوا کہ ایک صبح ہم بھی دیکھیں گے جو نہ صرف امریکن صدر کے سامنے اپنے ملک کو گریٹ بنانے کی بات نہیں کرے گا بلکہ دنیا کے اسٹیج پر کھڑا ہو کر چلا چلا کر کہے گا lets make pakista great again اور ہم سب کہیں گے انشاللہ خیر !قارئین وطن!اس بار سیاسی سرگرمیاں تو کمزور رہیں تفریح کے پروگرام پر توجہ زیادہ رہی بس ایک شام میں لودھی صاحب کے ساتھ بیٹھا پروگرام بنا رہا تھے کہ چلیں ناردن علاقہ کی سیر کر کے آئیں کہ میں نے ان کو تجویز دی کہ کیوں نہ عذر بھائی جان کی سیر کو چلیں ،سیر کی سیر اور ایک نیا ملک بھی دیکھ آئیں ،انہوں نے میری پیشکش کی حامی بھری اس پروگرام کا زکر میں نے اپنے بھانجے میاں سلمان لالیکا صاحب سے کیا ان کو عذر بھائی کی سیر کا تجربہ بھی خوب تھا بس دوسرے دن وہاں کے ویزہ کے لئے آن لائن اپلائی کیا اور چار دن کا پروگرام بنا کر روس سے نو آزاد ملک کی سیر کو نکلے عذر بھائی جان کی زمین پر اترے تو ایسا لگا جنت کے کسی ٹکڑے پر آمد ہوئی ہے اس چھوٹے سے سفر پر سب سے خوبصورت واقعہ کہ مجھ کو اپنے بھانجے کی صورت میں ایک بہت ہی نایاب دوست ملا ہم دوپہر کے قریب باکو جو کیپیٹل ہے ائیر پورٹ سے اپنے ہوٹل تک کیا خوبصورت ملک ،کیا صفائی ،شاندار عمارتیں، ہم تینوں بس یہی تبصرہ کرتے کرتے ہوٹل پہنچے جہاں تھوڑی دیر سستانے کے بعد میاں سلمان نے کہا کہ مامو چلیں باہر نکلیں، سب سے پہلے میں نے میاں سب پر پابندی عائد کی کہ کوئی ماموں شاموں نہیں ہم سب برابر کے دوست ہیں، مجھ کو آپ سردار صاحب کہہ کر مخاطب کریں گے اس اگریمنٹ کے بعد ہم سب نظام اسٹریٹ پہنچے جو ان کا مرکزی سنٹر ہے کیا خوب رونق سے بھرپور اتنے میں تین چار پاکستانی نظر آئے کہ وہ پاکستانی ریسٹورنٹ کے گائیڈ تھے ہم نے کہا کہ چلو آج ہم وطنی کھانے سے عذر بھائی جان کی ابتدا کرتے ہیں جس رسٹورانٹ میں کھانے کے لئے پہنچے جو ویٹریس آڈر لینے کے لئے آئی ایسا لگا کہ کوئی پاکستانی گڑیا ہے لودھی صاحب نے خاتون کو غور سے دیکھنے کے بعد اپنا تعارف کروایا تو پتا چلا کہ دس سال پہلے وہ لودھی صاحب کی کلائی نٹ رہ چکی ہے اور خاندانی مجبوریوں کی وجہ سے عذر بھائی جان ہجرت کر کے یہاں آباد ہوگئی ہے کہتے ہیں کہ انسان زندہ ہو تو کہیں نہ کہیں ملاقات ہو جاتی ہے خیر بل دے کر باہر نکلے تو ایسا لگا کہ پریوں کے جھرمٹ میں کھڑے ہیں کافی رات ہوچکی تھی اور میں اپنی عمر کی دردوں کی وجہ سے بیزار ہو رہا تھا ہم واپس ہوٹل پہنچے یہ دونوں گپیں مارتے رہے میں تو گھوڑے بیچ کر سو گیا ۔
قارئین وطن! دوسرا دن وہیں نظام اسٹریٹ پر پہنچے توعین بازار کے بیچ پیزا بار اینڈ گرل ریسٹورنٹ پر نظر پڑی میں دوستوں کو ساتھ لے کر اندر داخل ہوا تو پہلے دو خوبصورت گڑیوں نے ہمارا استقبال کیا میری نظر ایک بڑے اچھے کونے پر پڑی میں نے اشارہ کیا کہ ہم وہاں پر بیٹھیں گے انہوں نے ویلکم کہا اور ہمیں ببٹھا کر مینو لائے پیزا تو ایسے نام ہی تھا ایسا لگا کہ ہم عذر بھاء جان میں نہیں ہیں ترکی میں ہیں سب نے اپنی مرضی کا کھانا منگوایا میں نے اپنا من پسند کھاجہ عدانہ کباب منگوایا کھانا کھا کر یہ دونوں حاضرات مجھ کو وہیں چھوڑ کر گھومنے چلے گئے میں نے اپنا سگار سلگایا اور قریبا گھنٹے وہیں ببیٹھا رہا اور ہر گزرتے حسن کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا اور اللہ کی تعریف کر رہا تھا کہ کیا شاندار ملک ہے اور ایک ہمیں دیکھیں کہ سال کی آزادی کے بعد بھی جیسے جھونپڑی میں میلا کچیلا بچہ خیر ہر ملک کی اپنی قسمت تیسرا دن ہم نیباکو کے سب سے بڑے کلب کی زیارت کرنی تھی میرے ایک کرم فرما ابراہیم راجہ صاحب مشہور اینکر اور وی لاگر نے بتاتا کہ اگر آپ EXTA CLUB نہیں گئے تو آپ نے عذر بھائی جان میں کچھ دیکھا ہی نہیں ایکسٹرا کلب زمین پر حوروں کا اجتماع گھر تھا رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس خوشبوں میں لپٹی یہ کوکاف کی پریاں جس طرف دیکھتی مسکراہٹوں کا سمندر بکھیرتی گزر جاتیں ایکسٹرا کلب جو حسن و جمال کا تماشہ گھر تھا وہیں پر پردیسیوں کو لوٹنے والیاں بھی تھیں خیر لٹتے لٹاتے کافی دیر گئے تک ہوٹل پہنچے اور نبیذ کے دو گھونٹ پی کر سو گئے ورنہ حوروں کی چمک کے بعد نیند کس کافر کو آتی چوتھے اور آخری دل پیزا بار پر زرینہ سے ملاقات ہوئی جو انگریزی زبان سے بھی واقف تھی وہ ایک مڈ لیول سنگر تھی اس سے دوستی ہو گئی کچھ گھنٹے ساتھ گزارے اور اس کی نور جہانی آواز کا لطف اٹھاتے رہیں پھر عذر بھائی جان کے مزے دار کھانوں کا لطف اٹھایا اور ایک دوسرے کو الوداع کہ کر رخصت ہوئے کہ صبح تڑکے ہماری پرواز تھی اپنے پیارے ملک پاکستان کے لئے کہ اس امید کے ساتھ کہ کوئی چیخ چیخ کر کہے کہ آو لیٹس میک پاکستان گریٹ -پاکستان زندہ باد پاکستان زندہ باد –
٭٭٭