سید ابوالاعلی مودودی کی برپا کی ہوئی تحریکِ کے بارے میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ چونکہ اسے پاکستان کے انتخابات میں کوئی بہت بڑی کامیابی نہیں مل سکی، اس لئے وہ ایک ناکام و نامراد جدوجہد رہی حالانکہ برِ صغیر پاک و ہند کے معاشرتی اور سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بہت واضح انداز سے نظر آتی ہے کہ سید مودودی کی جدوجہد نے اس پورے خطے پر ایسا بڑا گہرا مثبت اثر چھوڑا کہ ریاستِ پاکستان کا آئین، ان کے طے کئے ہوئے نصب العین کے عین مطابق بنا اور وسیع پیمانے پر،اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔تحریکی جدوجہد کے اس پہلو پر دوسرے محقق تو تحقیق کرتے رہیں گے مگر میں یہاں سید مودودی کے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کئی جانے والے ایک سوال کا جواب حاضرِ خدمت کرتا ہوں جو تحریک کی کامیابی پر خود ان کا اپنا مقف ہے۔ یہ انٹرویو، ریڈیو پاکستان پر میں نشر ہوا تھا۔مولانا محترم سے سوال یہ کیا گیا کہ آپ نے جس مشن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا اور جس طرح آپ نے اس کیلئے پوری عمر جدوجہد کی، اور آج ایک ایسے مقام پر ہم پہنچے ہیں کہ جہاں وہ نصب العین اپنی منزل کے قریب پہنچتا نظر آتا ہے، میں آپ سے یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ اس ساری صورتحال کو اپنی اس جدوجہد کی روشنی میں کس طرح سے محسوس کرتے ہیں اور کیا آپ کی نظر میں اب آپکی یہ جدوجہد فی الواقع اپنے منطقی نتیجے تک پہنچ رہی ہے اور کیا فی الواقع آپ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے؟
اس سوال کے جواب میں، اپنے کام کے نتائج اور اثرات کو مولانا محترم نے اس نشری تقریر میں کچھ اس طرح سمیٹا ہے کہ جسے جان کر ناکامی اور مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ میں یہاں ان کے اپنے ادا کئے ہوئے الفاظ کو تحریر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ میری ترجمانی کی وجہ سے کوئی ابہام نہ رہے۔مولانا محترم فرماتے ہیں کہ یہ وہ سوال ہے کہ جس میں آدمی کو یہ کہتے ہوئے مشکل پیش آتی ہے کہ اس کے کام کے کیا اثرات اور کیا نتائج پائے جاتے ہیں؟ کیونکہ اس طرح سے آدمی گویا کہ کچھ اپنی تعریف میں کچھ کہنا چاہتا ہے اور یہ بات میرے پیشِ نظر ہر گز نہیں ہے۔ البتہ میں اس بات کو محسوس کر رہا ہوں کہ پچھلے تیس چالیس سال کے دوران میں، اسلامی خیالات کی اشاعت کا کام جتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے اور وہ صرف ہم ہی نے نہیں کیا، دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت اب اسلام کی خواہاں ہو گئی ہے اگرچہ اس کے اخلاق بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہو سکے لیکن ان میں اسلام کی سمجھ بھی پیدا ہوئی ہے اور اسلامی نظام قائم کرنے کی تڑپ بھی پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح سے ہماری درس گاہوں میں، وہ درس گاہیں جو میکالے کے نظام پر قائم تھیں، خدا کے فضل سے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو اسلام سے گہری قلبی وابستگی بھی رکھتی ہے اور اسلام کا فہم بھی بڑی حد تک اس کو حاصل ہو چکا ہے۔ذہن سازی کا ایک بڑا کام، جو سید مودودی کی برپا کی ہوئی تحریک کے نتیجے میں انجام پایا وہ بلاشبہ، نبی اکرم ۖ کی سنت کے عین مطابق تھا۔ ریاستِ مدینہ کی بنیادیں بھی قرآنی تعلیمات کی بھرپور نشر و اشاعت کے ذریعے استوار ہوئیں تھیں۔ صحابہ کرام کی تربیت اور تزکیہ، نبی اکرم ۖ کی نگرانی میں ہوا اور جس کے نتیجے میں منکرات سے معاشرہ پاک ہو گیا اور ہر طرف معروف کا بول بالا نظر آنے لگا۔ آخری نتیجہ یہ تھا کہ پورا نظام اسلام لے آیا۔ تعلیم یافتہ طبقے کی ذہن سازی کے بعد، سید مودودی کی ہدایات بھی یہی تھیں کہ یہ پڑھے لکھے لوگ اب دیہاتیوں اور مزدوروں تک پہنچیں اور ان تک اسلامی تعلیمات پہنچائیں تاکہ ان کی بھی ذہن سازی ہو سکے اور پورا معاشرہ منکر سے پاک ہو جائے۔کامیابی و ناکامی کے معیار کے بارے میں یہ قرآنی آیت مجھے بیحد پسند ہے اور ہم سب کیلئے مشعلِ راہ بھی ہے۔لقد نصرم اللہ فِی مواطِن ثِیر ویوم حنین ِذ اعجبتم ثرتم فلم تغنِ عنم شیئا وضاقت علیم الارض بِما رحبت ثم ولیتم مدبِرِین ۔ ثم انزل اللہ سِینتہ عل رسولِہِ وعل المومِنِین وانزل جنودا لم تروہا وعذب الذِین فروا وذلِ جزا الافِرِین(سورہ توبہ، آیت نمبر 25،26) اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمھاری مدد کر چکا ہے، ابھی غزوہ حنین کے روز (اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو)اس روز تمھیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمھارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے، پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرینِ حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں۔آخر میں بشیر انصاری صاحب کے مولانا محترم کے بارے میں ان اشعار کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں۔
ان اندھیاروں کی دھرتی میں نور کا ایک مینارہ تھا
جس کی ضو پاشی نے سارے شہر کا حسن نکھارا تھا
ہم جامد وہ متحرک تھا، تھی مشرق و مغرب پر بھی نظر
تحریکِ مجسم تھا گویا، یوں دیکھنے میں تو تنہا تھا
٭٭٭