بدلتے سال کیساتھ بدلتی امریکی پالیسیاں!!!

0
20
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ممتاز سفارت کار ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ ہمیں نئی امریکی انتظامیہ سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ باجوہ ڈاکٹرائن کی بازگشت میںعمران کی وائٹ ہائوس یاترا کے دوران جنرل باجوہ کو کہیں اورملنے والی پزیرائی غیر معمولی تھی ۔ایک رائے ہے کہ عمران حکومت کا تختہ الٹے جانے کا مبینہ فیصلہ لگ بھگ اسی دور میں ہوچکا تھا۔ کل کیا ہوگا ، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔دیکھنا یہ ہے کہ تین ہفتوں کے بعد حکومت سنبھالنے والی ٹرمپ انتظامیہ اپنے نامزد سیکریٹری آف سٹیٹ کے رجیم چینج اور آمروں کی حمایت سے متعلق امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ پالیسی پرماضی میں دیئے گئے تنقیدی بیان کواب کس حد تک ملحوظِ خاطر رکھتی ہے۔سال 2009 میں اوبامہ انتظامیہ نے روایتی امریکی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے عسکری اسٹیبلشمنٹ کی بجائے ہمارے ہاںسویلینز سے تعلقات کار قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ بظاہر یہ ایک درست فیصلہ تھا تاہم بگاڑ اس وقت پیدا ہوا جب کیری لوگربرمن ایکٹ کی مد میں اربوں ڈالرز پیپل ٹو پیپل رابطے استوار کئے جانے کے نام پر غیر سرکاری تنظیموں میں براہِ راست بانٹے جانے لگے ۔ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی وفات اور ان کے شوہر کے ذریعے طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لانے کی ناکام کو ششوں کے بعد امریکہ نے تمام امیدیں نواز شریف سے وابستہ کر لیں تھیں۔ اسی دوران امریکہ اورمودی کے بھارت کے درمیان تزویراتی تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ افغانستان میں کٹھ پتلی حکمران بھی کھربوں ڈالرز کی امریکی ہڈی چچوڑتے اوراپنے ہاں تمام تر بدامنی کے لئے پاکستان پر غراتے ۔ بظاہریہ امریکی امداد اور سرپرستی کا ہی شاخسانہ تھا کہ ہمارے ہاں اچانک سینکڑوں مغرب زدہ این جی اوزبرساتی کھمبیوںکی طرح اُگنے لگیں۔ امداد بانٹنے والے ادارے کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق لاکھوں امریکی ڈالرزنامعلوم میڈیا ہائوسز، چند میڈیا پرسنز ،ایک معروف وکلا تنظیم اور مخصوص یونیورسٹی اساتذہ میں بانٹے گئے۔اسے اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ اگلے ہی روز ایک اور مغربی یونیورسٹی میں امریکی امداد اور این جی اوز کے درمیان باہم تعلق کے موضوع پرڈاکٹریٹ کرنے والے ایک پاکستانی نے سوشل میڈیا پر ایک دستاویز پوسٹ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ زرداری حکومت کی ایک اہم خاتون وزیر کی جناح اسٹیٹیوٹ نامی این جی او نے ملک میں جمہوریت کے فروغ کے نام پر پانچ لاکھ ڈالرز کی خطیر امدا د وصول کی۔رچرڈ گرنیل نے ہی چند روز پہلے ہمارے ہاں کے ایک بڑے میڈیا ہائوس کو مبینہ طور پر یوایس ایڈ سے ہی ملنے والی بھاری امداد کے انکشاف پر بھی لگ بھگ اسی نوعیت کا تبصرہ کیا تھا۔ رچرڈ صاحب کو غیر متعلقہ شخص قرار دیتے ہوئے ہمارے وزیرِ دفاع خواجہ آصف صاحب درست فرماتے ہیں کہ ان کی حالیہ پے در پے ٹویٹس سے پہلے کسی نے ان کا نام تک نہیں سن رکھا تھا۔ خواجہ صاحب نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ان بیانات سے اُبھرنے والی صورتحال کو آپریشن گولڈ سمتھ کا حصہ قرار دیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ رچرڈ گرنیل نے بھی اِس سے قبل کبھی خواجہ صاحب کا نام سن رکھا تھا یا نہیں تاہم جوابی ٹویٹ میں انہوں نے ہمارے وزیرِ دفاع کے اِس بیان کو Reckless قرار دیا ہے۔ رچرڈ گرنیل جو بھی ہوں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے ٹویٹس صرف ان کے ذاتی خیالات کا اظہار ہیں؟ یا کہ نجم سیٹھی کی اس بات کو درست مان لیا جائے کہ رچرڈ جیسے نامزد عہدیداروں اور ارکانِ کانگرس کے بیانات محض امریکی پاکستانیوں کی فنڈنگ کا شاخسانہ ہیں؟ ہمارے خیال میں شہباز شریف کے سابق مشیر اور ٹی وی اینکر فہد حسین کی اس بات میں زیادہ وزن دکھائی دیتا ہے کہ رچرڈ گرنیل تواتر کے ساتھ ایسے معاندانہ بیا نات تنِ تنہانہیں داغ سکتے۔ یہی بات اس وقت اور بھی قرینِ قیاس دکھائی دینے لگتی ہیں کہ جب ہم رچرڈ گرنیل کے منہ سے وہی باتیں زیادہ صراحت کے ساتھ ایک ٹی وی انٹرویو میںسنتے ہیں۔دوسری طرف چیئرمین بلاول صدر ،عمران خان کے حق میںدیئے گئے اِن بیانات کو دراصل پاکستان کے میزائل اور ایٹمی پروگراموں پر حملہ سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے مگر یہ نہیں بتایا کہ اس باب میں پاکستان پر حالیہ پابندیاں مو جودہ حکومتی بندوبست کی ضامن سمجھی جانے والی بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے کیوں عائد کی گئی ہیں۔ 2008 میں بلاول کی بیرونِ ملک مقیم والدہ ہی تھیں کہ جن کی نو منتخب اوبامہ انتظامیہ کے ارکان کے ساتھ زیرِ زمین ملاقاتوں کا نتیجہ کیری لوگر برمن ایکٹ کی شکل میں برآمد ہو اتھا۔ ایک عام تاثر ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کی خواہش کے برعکس اقتدار میں آنے والے ٹرمپ امریکی جنگوں کو سمیٹنا چاہتے تھے۔افغانستان کے باب میں اسی بنا پر ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان ابتدائی تلخ ٹویٹس کے تبادلے کے بعد ہم آہنگی پیدا ہونے لگی تھی۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کے حلیف سمجھے جانے والے صدر بائیڈن نے حکومت سنبھالی تو افغانستان سے ذلت آمیز پسپائی ان کے حصے میں آئی۔ یا د رہے کہ یہ وہی بائیڈن صاحب ہیں جو سویلین بالادستی کے نام پر سال 2009 میں اربوں ڈالزر کی امداد کا کیری لوگر بل لے کر پاکستان وارد ہوئے تھے چنانچہ وہ تمام مقامی کارندے کہ برسوں جن کی آبیاری کی گئی تھی ، سویلین بالا دستی اور ووٹ کو عزت دو جیسے نعروں کے پھریرے لہراتے پوری شدت کے ساتھ ہائبرڈ بندوبست کے خلاف کارفرما ہو گئے۔ لندن اِن کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ بیسویں صدی کے وسط میں نو آبادیاتی زنجیروں میں جکڑی اقوام، انسانی آزادیوں کی علمبردار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھا کرتی تھیںیہی وہ دور تھا جب چیئرمین مائو نے بھی امریکہ کو آزادی کے لئے برسرِپیکار قوموں کی امیدوں کا مرکز قرار دیا تھا۔ خود ہندوستان کی قبل از وقت آزادی امریکی دبائو کا نتیجہ تھی۔قائدِ اعظم اسی امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کار قائم کرنے پر مصر رہے۔ مقبول حکومتوں کے تختے الٹنے والی ڈیپ سٹیٹ اور امریکی معاشرے میں پنپنے والی آزاد روح کے مابین دائمی کشمکش مگر جاری ہے۔ اگلے تین ہفتوں کے بعد یہ کشمکش کیا رخ اختیار کرتی ہے، کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم سال 1953 میں امریکی ڈیپ سٹیٹ نے پہلے رجیم چینج آپریشن کے ذریعے ایران کے منتخب وزیرِاعظم کا تختہ الٹا توپھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ کمیونزم کے مقابلے میں خود کو فری ورلڈ کا لیڈر سمجھنے والاامریکہ کو جلد ہی ایک استعماری طاقت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here