ٹرمپ اور وینس کی جارحانہ حکمت عملی!!!

0
36

ٹرمپ اور وینس کی
جارحانہ حکمت عملی!!!

صدر ٹرمپ اور یوکرینی سدر زیلنسکی کے درمیان اوول آفس میں ہونے والی بیٹھک دنیا بھر میں ایسی مقبول ہوئی کہ ہر کہیں اسے کے چرچے تھے اور ہر کوئی یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہا تھا کہ جو رویہ وائٹ ہائوس میں ٹرمپ اور وینس کی جانب سے ان کیساتھ برتا گیا وہ قابل افسوس تھا لیکن ہم اس میٹنگ کی آڑ میں یوکرینی صدر زیلنسکی کے گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف نہیں کر سکتے جوکہ بطور صدر ان سے سرزد ہوئی ہیں ۔زیلنسکی یوکرین میں کرپشن ، بدعنوانی اور دیگر غیرقانونی اقدامات پر میڈیا کی زینت بن چکے ہیں پھر ایک میٹنگ پر ان کو مظلوم ثابت کرنا درست نہیں ہے۔ میرے نزدیک صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے وائٹ ہائوس میں یوکرینی صدر زیلنسکی سے جو رویہ اختیار کیا وہ درست تھا کیونکہ امریکہ یوکرین کو لاکھوں ڈالر امداد اور دفاعی سامان دے چکا ہے جس کے جواب میں یوکرینی صدر امریکہ کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں تو پھر اس طرح کا رویہ تو سامنے آئے گا۔جے ڈی وینس کی جانب سے جمعہ کے روز اوول آفس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کو دوٹوک جواب دینا اس بات کا مظہر تھا کہ امریکی نائب صدر کسی جھجک کے بغیر مرکزی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ وہ اپنے پیشروؤں کی طرح محض ایک خاموش سیاسی معاون بننے کے بجائے بھرپور انداز میں جارحانہ مؤقف اختیار کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔یہ وینس ہی تھے جنھوں نے زیلنسکی پر سب سے پہلے سخت تنقید کا آغاز کیا اور پھر صدر ٹرمپ اس میں شامل ہوئے۔یہ ملاقات اس وقت تک خوشگوار چل رہی تھی جب تک کہ وینس نے روس یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی حل تلاش کرنے پر ٹرمپ کی تعریف کرنا نہیں شروع کی۔زیلنسکی جو واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان براہ راست مذاکرات کے سخت ناقد رہے ہیں، وینس کی بات کاٹتے ہوئے بولے کہ آپ کس قسم کی سفارت کاری کی بات کر رہے ہیں، جے ڈی؟ آپ کا مطلب کیا ہے؟وینس نے فوری جواب دیا کہ میں اس سفارت کاری کی بات کر رہا ہوں جو آپ کے ملک کی تباہی کو ختم کر سکے، ان کے سخت لہجے نے یوکرینی صدر کو حیران کر دیا۔جنابِ صدر پورے احترام کے ساتھ، میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ آپ اوول آفس میں آ کر اس معاملے کو امریکی میڈیا کے سامنے اچھالیں۔ امریکی نائب صدر کے لیے ان کے ملک کے دورے پر آئے ہوئے سربراہ مملکت پر یہ حملہ معمول کی بات نہیں ہے۔عام طور پر ان کا کام صدر کے انتخاب میں مدد دینا اور پھر خاموشی سے اپنے باس کے ساتھ کھڑے رہنا ہوتا ہے۔ وہ وفادار معاون کے طور پر بیرونی دوروں کے دوران صدر کی نمائندگی کرتے ہیں اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نائب صدر صدارت سے بس ایک قدم دور ہوتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے نائب صدر، نرم مزاج مائیک پینس کے برعکس وینس کا انداز بالکل مختلف ہے لیکن وینس، جنھیں وسیع پیمانے پر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نظریات کو واضح کرنے والا شخص سمجھا جاتا ہے، طویل عرصے سے یوکرین کے لیے امریکی امداد کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔جب وہ 2022 میں اوہائیو سینیٹ کی نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے تھے تو ایک پوڈکاسٹ میں انھوں نے صاف کہا کہ مجھے آپ سے سچ بولنا ہے، یوکرین میں کیا ہوتا ہے مجھے اس کی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آٹھ سال پہلے وینس نے ٹرمپ کو ‘احمق’ کہہ کر مذاق اْڑایا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ان کی سیاسی سوچ میں تغیر آیا کہ اب وہ صدر کے ‘میک امریکہ گریٹ اگین’ (ماگا) نظریے کے ممکنہ جانشین سمجھے جا رہے ہیں۔یوکرین کے ساتھ ساتھ امریکہ کی نئی حکومت کا یورپ کے ساتھ ایک نیا مگر انتہائی سخت رویہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ ناصرف یورپ سے دور ہو رہا ہے بلکہ اب اس کی زیادہ توجہ چین پر ہے اور یہ کہ امریکہ اب یورپی خطے میں بھی ٹرمپ طرز پاپولزم کی ترویج کر رہا ہے۔ اس ہفتے کے آغاز پر اوول آفس میں برطانوی وزیراعظم سے بھی جے ڈی وینس نے ایسا ہی رویہ رکھا۔انھوں نے برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر سے کہا کہ انھوں نے اپنے ملک میں آزادی اظہار پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جو ناصرف خود برطانیہ کو متاثر کر رہی ہیں جو کہ بہرحال یہ آپ کا اندرونی معاملہ ہے مگر اس سے امریکہ کی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں جس سے بالآخر امریکی شہری متاثر ہوں گے۔برطانوی وزیراعظم نے اپنے ملک کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا جہاں تک برطانیہ میں آزادی اظہار رائے کی بات ہے تو مجھے اپنی تاریخ پر بہت فخر ہے، ہمارے ہاں بہت طویل عرصے سے آزادی اظہار رائے ہے اور یہ بہت طویل عرصے تک رہے گی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور نائب صدر وینس کی جارحانہ حکمت عملی عالمی رہنماوں کو ساتھ ملازنے میں کارگر ثابت ہوگی یا پھر امریکہ میں دوریاں پیدا کرے گی ، اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کریگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here