پچھلے ہفتہ ہم مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے جو پڑوس میں ہے، نکلے تو کافی اُلجھن کا شکار تھے کہ نماز کے دوران چند بچے شور شرابہ، اُچھل کُود کرتے ہیں اور ان کے والد یا نانا اور دادا انہیں کچھ نہیں کہتے اس کا ذکر ہم پیش امام سے بھی کر چکے تھے اور اب مسجد کی انتظامیہ کے رکن سے کر رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم بچوں سے کچھ کہتے ہیں تو وہ مسجد آنا چھوڑ دینگے اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے ایک خاتون نے بھی یہی کچھ کہا، تو ہمیں یقین آیا کہ ہم کچھ غلط نہیں کہہ رہے، کوئی تو ہو جو کہے، ہمارا معاشرہ جس انداز سے تشکیل ہو رہا ہے مستقبل میں ایک بھیانک تصویر بنتی نظر آرہی ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے اور زبردستی بڑے بھائی اور والد کے کہنے پر مسجد جاتے تھے تو سب سے پہلے واسطہ مسجد کے پیش امام سے پڑتا تھا اور وہ ہم سمیت دوسرے بچوں سے مخاطب ہوتے تھے نماز سے پہلے، مسجد میں بولنا ٹھیک نہیں یہ اللہ کا گھر ہے، اللہ ناراض ہوتا ہے، مسجد میں ادب اور احترام ضروری ہے، داخلے سے پہلے جب نماز شروع نہ ہوئی ہو، با آواز بلند اسلام و علیکم کہنا چاہیے، نیت کے بعد دونوں ہاتھ ناف پر ہوں، دائیں بائیں نہ دیکھیں، کسی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے تو وضو دوبارہ کریں، مسجد میں داخل ہوتے وقت دایاں پاﺅں پہلے اندر داخل کریں، کسی سے ہاتھ ملائیں تو دونوں ہاتھوں سے مصافحة کریں، جمعہ کی نماز کے کچھ اور آداب اور فرائض بتاتے کہ خطبہ اہم ہے، خطبہ سنے بغیر نماز ادھوری ہے، خطبہ ہو رہا ہو تو سنتیں پڑھنا درست نہیں۔ نماز پڑھنے والے کے آگے سے مت گزرو، گناہ ملتا ہے۔ لیکن آج ہمارے مشاہدے کے مطابق وہ سب کچھ ہو رہا ہے جس کیلئے پیش امام نے منع کیا تھا۔ دھیرے دھیرے اُن باتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کیلئے منع کیا گیا تھا۔ چند ہفتے پہلے ایک بزرگ ہمارے سامنے سے بے دھڑک گزرے نماز کے دوران آگے سے کرسی اٹھائی اور اگلی صف میں کرسی بچا کر بیٹھ گئے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عید کے خطبے اور جمعہ کی نماز کے خطبے کے دوران 12 سال کی عمر تک کے بچے مسجد کے پارکنگ لاٹ سے منسلک مسجد کیلئے گھر کے سامنے پختہ لان میں باسکٹ بال کھیلتے ہیں اور انہیں کوئی کہنے والا نہیں۔ انتظامیہ چندہ جمع کرنے میں مصروف نظر آتی ہے جو ایک ضروری چیز ہے لیکن یہ بھی اہم ہے کہ بچوں کو مسجد کے آداب بتائے جائیں، ایسا کرنے سے کون ناراض ہوگا، ایک صاحب سے جب کہا کہ بچوں کی تربیت نہ گھر میں ہے اور یہاں مسجد میں بھی کوئی کہنے والا نہیں۔ مسجد میں کھیلتے ہیں، بچے تو بچے ہیں ان کو بتانا ضروری ہے تو جواب یہ تھا جی بات ٹھیک ہے لیکن اب بچے بھی کیا کریں باپ صبح سے اُبر لے کر نکلتا ہے، دن بھر ماں کو تنگ کرتے ہیں گھر میں بند (آج کل اسکول کی چھٹیاں ہیں) بس شام کو ہی باہر نکلتے ہیں تازہ ہوا بھی تو چاہیے۔ ہمارا کہنا تھا بالکل نکلیں لیکن ماﺅں کو چاہیے کہ بچوں کو تنبیہہ کریں کہ مسجد میں جا کر شور نہ کریں۔ ہمیں معلوم ہے آج کل بچے پالنا بے حد مشکل کام ہے، ماﺅں کیلئے ہمیشہ سے مشکل تھا، آج ہم سوچتے ہیں پرانے زمانے میں ہر ماں باپ کے اوسطاً چھ بچے ہوتے تھے اور سب کے سب تمیز اور اخلاق سے تربتر۔ اس کا جواب یہی ہے جو ایک کہاوت ہے، بچہ کو پالنے کیلئے پورے محلہ کی نظریں چاہئیں، یہاں کے امریکی بچوں کیلئے بھی ہیلری کلنٹن نے یہ بات دہرائی تھی۔ خیر یہاں کی بات چھوڑئیے جہاں بچہ ناراض ہو کر 911 پر کال کرتا ہے اور والدین گرفتار اور بچہ کو دوسروں کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے ہمارے کچھ ہم وطن ڈرتے ہیں بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے لیکن اگر وہ یہودیوں کے بچوں کی پرورش دیکھ لیں تو دنگ رہ جائیں کہ جو ہمارے زمانے میں ہوتا تھا وہ کا وہی یہودی والدین اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کی آدھی تربیت گھر میں اور باقی عبادت گاہوں میں جنہیں SYNAGOGUE کہا جاتا ہے یہی نہیں عیسائیوں کے چرچ میں بھی ہر کوئی ٹائی سوٹ پہن کر داخل ہوتا ہے۔ لیکن آج ہم یہ سب کچھ بھول گئے ہیں یا پھر پاکستان میں مذہبی پیشوا (نام نہاد) بچوں کی تربیت صحیح نہیں کر رہے مدرسوں میں سوائے قرآن و نماز اور جنت کے ذکر اور اس کے حصول کے کچھ اور نہیں بتایا جاتا۔ آج کل جمعہ کی نماز میں جو خطبے سنتے ہیں کان کم ہی سنتے ہیں۔ کوئی ایسی بات سننے کو کم ہی ملتی ہے جس سے تقویت ملتی ہو، ایمان تازہ ہو جائے، تو ہمیں وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ سائنسی ترقی میں مسلمانوں کا پچھلی تین صدیوں سے کتنا حصہ ہے اتنا ہی نہیں کہ آلو کھانے والی قوم آلو چھیلنے کا سادہ سا ہتھیار (PEELER) جو صرف لوہے کی ایک پتری سے ڈھالا جاتا ہے بنا سکی ہو۔ البتہ نئے نئے اقسام کے بے مزہ پکوان بنانے کی دوڑ ہر چھوٹے بڑے ہوٹل سے ٹھیلے تک جا رہی ہے۔ یہاں بھی ہم پاکستانیوں، مصریوں، افغانیوں، بنگلہ دیشیوں نے آدھی تیتر آدھی بٹیر، کراچی لاہور کے مقبول ریستوران، بندو خان، صابری نہاری، اسٹوڈنٹ بریانی کے نام رکھ کر لوگوں کو قورمہ، نہاری حلیم سے نفرت دلائی ہے۔
بات اخلاق اور مساجد میں بچوں کے اُچھل کُود کی ہو رہی تھی نیویارک سے باہر بھی یہی حال ہے، ٹی نیک نیو جرسی کی ایک مسجد میں مغرب کی نماز کے دوران پانچ چھ بچے اور بچیاں جو وہاں شاید قرآن پڑھنے آتے ہونگے مسلسل دھما چوکڑی کرتے رہے اور نماز کے بعد لوگ خاموشی سے باہر چلے گئے ایک صاحب سے پوچھا جناب کیا روزانہ یہاں بچے ایسا ہی کرتے ہیں وہ ہمارے ہم خیال نکلے کہنے لگے جی اور کوئی روکنے والا نہیں پیش امام بھی ان کے والدین سے کچھ نہیں کہتے ایک بار کسی سے کہا تو جواب یہ تھا مسجد میں نہ لائیں تو کہاں لے جائیں!
ایک اور بات جو ہمارے مشاہدے میں آئی وہ بے شور کی مسجد میں جمعہ کی نماز کے دوران کہ جہاں ہمارے دوست فضل الحق کے بہنوئی کی نماز جنازہ ہونا تھی اور وہیں سے ماﺅنٹ سنائے میں واقع قبرستان میں دفنانا تھا جہاں وقت کی پابندی تھی، مسجد میں نماز کا وقت ایک بجے کا تھا مطلب واعظ اور خطبہ اور پھر نماز، جانتے ہوئے بھی پیش امام نے خطبہ طویل کر دیا ہمارے نزدیک وہ واعظ ہی لگ رہا معلوم نہ ہو اکب خطبہ شروع ہوا اور کب واعظ اور جماعت دس منٹ دیر سے کھڑی ہوئی، نماز کے بعد نماز جنازہ اور مسجد آدھی سے زیادہ خالی، وہاں معاملہ دونوں طرف کا تھا انتظامیہ کا کہنا تھا کہ دیر اس لئے کہ لوگ دیر سے آتے ہیں اور لوگوں کا کہنا تھا ہمیں معلوم ہے جماعت ایک پچاس پر کھڑی ہوگی غور کیجئے ہم کہاں جا رہے ہیں ضروری ہے وقت کی پابندی ضروری ہے۔ بچوں کی تربیت۔
٭٭٭
مسئلہ کشمیر….اور عالمی دنیا!!!