کامل احمر
ابن عرابی چودھویں صدی عیسوی کا مفکر تھا تصوف کے عالم میں اس نے کہا تھا، اگر مصائب اللہ کی رحمت نہیں تو وہ نبیوں (پیغمبروں) کے حصہ میں کیوں آئے۔
اور ایک آدھ صدی پہلے میرے امام (مسجد) قادری نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ قوموں پر بُرا وقت ڈالتا ہے اس لئے کہ وہ اپنا راستہ بدل دیں یا پھر تباہ کر دیتا ہے انہوں نے قرآن پاک میں لوطؑ اور نوحؑ کا واقعہ سنایا۔ اس دوران ہم نے بہت کچھ دیکھا اور اس سے بھی بُرا نو گیارہ کے بعد دیکھنے کو ملا، افغانستان، عراق، لیبیا، مصر اور شام تو کیا مسلمانوں کو پیام دیا گیا تھا اور کیا پاکستان مسلمان ملک نہیں تھا، میں سمجھتا ہوں پاکستان میں جتنا اسلام دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے وہ شاید کہیں نہیں، پورے سال اللہ اور رسولﷺ کا ذکر اور علیؓ کی شان میں قصیدے، شاید ہی کسی دوسرے ملک میں سننے اور دیکھنے کو ملتے ہوں اور نہ ہی حکمرانوں کی لُوٹ مار بھی دیکھنے کو نہ ملتی ہو، آپ کہہ سکتے ہیں، عراق، مصر، لیبیا، شام میں جمہوریت نہیں تھی، آمروں کا قبضہ تھا اور انہوں نے عوام کو لُوٹا، لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ یہ آمر ملک میں امن قائم رکھنے میں کسی نہ کسی طرح کامیاب ہوئے، آپ کہیں کی بھی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہیں بھی سو فیصدی عوام خوش نہ ہونگے اور اگر خوش ہیں تو وہ برطانیہ اور کینیڈا کے عوام ہیں جہاں پارلیمانی نظام کے تحت عوام کو سہولتیں دی جاتی ہیں کیا یہ دونوں ملک مسلمان ہیں، نہیں لیکن دونوں ملکوں کے کرتا دھرتا انسان ہیں بعد میں وہ کچھ بھی ہوں اور عوام کیلئے دن رات کام کرتے ہیں۔
پاکستان کے حکمرانوں کیلئے بہت کچھ لکھا اور بولا جا چکا ہے لیکن عمران خان سے پہلے ان میں کوئی انسان نظر نہیں آتا، نام لینے کی ضرورت نہیں ایک ایسا ملک جہاں کا آمر بھی جمہوری حکمران سے کم نہیں اور یہ سب مسلمان تھے اور ہیں، حج پر حج کرتے ہیں اور آتے جاتے عمرہ بھی کرتے رہتے ہیں لیکن خدا ان کے دلوں میں خوف پیدا کرنے سے قاصر ہے یہ وہ ہیں جو بار بار توبہ کرتے ہیں لیکن ہر بال بھول جاتے ہیں اپنی پرائی دولت میں کسی کو شریک نہیں کرتے، اگر سیاست کو ہم شعبدہ بازی کہیں تو یہ ہر سو کرتے ہیں، لوگوں کی آنکھوں اور یادداشتوں میں دھول جھونکتے ہیں، عمران خان کو گندے، بے ہودہ الفاظ سے نوازتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے نہیں، اگر ڈرتے تو پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا اور رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے جو بہت آسان اور سیدھا ہے تو یہ دنیا میں بھی سُرخرو ہوتے اور انہیں جنت میں جانے کیلئے کسی دوسرے کے دعا و درود کی ضرورت نہ ہوتی۔
مولانا طارق جمیل پچھلے ہفتہ ٹی وی پر آئے اور انہوں نے گڑ گڑا کر دعا کی کہ آنکھوں سے آنسوﺅں کا سیلاب بپا ہو گیا سب کو معلوم تھا کہ اللہ جانتا ہے ان سب کے دلوں میں کیا ہے، منافقت، منافقت اور صرف منافقت، مولانا طارق کو کیوں ضرورت پڑی کہ وہ دوسروں کی سفارش کریں کہ ہم میں اکثریت کو یقین نہیں کہ اللہ ان کے گناہوں، مظلوموں اور غریبوں کا حق مارنے کی عادت کو بھول کر معاف کرےگا کہ وہ اپنی عادت جواب فطرت بن چکی ہے ترک کر دینگے یہ جو غربت ہے پاکستان میں یہ جولوگوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے ان کے حقوق غضب کر دیئے گئے ہیں تو یہی کہاوت ہے ”جیسی کرنی ویسی بھرنی“ انگریزی میں WHAT GOES Around, Comes Around.
یہ کہاوت پوری دنیا میں وہاں کی زبانوں میں ایسی ہی ہے اور امریکہ میں ہم نے سب سے پہلے (پچاس سال) ایک آفس میں ملازمت کے دوران ایک بڑی بی سے سنی تھی اور بڑی بی کو اس پر پورا یقین تھا پہلے امریکہ میں عام امریکن کی سوچ میں خوف خدا، شامل تھا پھر امریکہ بدلنا شروع ہوا عام آدمی کے حقوق پر ڈاکہ پڑنے لگا۔ دھیرے دھیرے اور پھر بڑی تیزی سے یہ ملک کارپوریشن کے نرغے میں آگیا یہاں کے سیاستدان حکمران پارٹی کے لابیسٹ (Lobby ist) کے گھیراﺅ میں آگئے اور عوام کی جگہ ان کی باتوں پر عمل کرنے لگے۔
ہم آج جہاں ہیں اور جس خوف اور اندیشے کا شکار ہیں کہہ سکتے ہیں قدرت امتحان لے رہی ہے، پیغمبروں پر بھی مشکلیں آئی تھیں تو ہم کیا ہیں لیکن کیا COVD-19(Corona) کے غلبے سے جو آج دنیا بھر میں پھیل چکا ہے چھٹکارا پا سکیں گے، جواب ہاں میں ضرور ہے لیکن کافی تباہی کے بعد، ایک تو جانوں کا ضیاع اور دوسرے مالی وسائل کا ڈھانچہ جو بُری طرح ہر ملک میں نازل ہو چکا ہے، اس میں دو باتیں ہیں، ملازمین کی تعداد میں حد درجہ کمی اور بزنس کو بھاری نقصان۔
لیکن اس میں جو فائدے فارما سیوٹیکل کمپنیز کو جو فائدہ ہونے جا رہا ہے وہ لا محدود ہے، بہت سے ملکوں میں ہر چند چین سمیت ملیریا کی گولی جس کا نامCHLORQVINE اور جو صدر ٹرمپ بھی بتا چکے ہیں روک تھام کا باعث بن رہی ہے۔
چین نے تقریباً دو دن پہلے تک کرونا پر قابو پا لیا تھا لیکن اب دوبارہ شروع ہو چکا ہے ادھر اٹلی میں کئی ہزار اموات کے بعد کرونا کو شاید رحم آگیا ہے رکا ہوا ہے۔
ہم مسلمان ہی نہیں جن کا تعلق پاکستان سے ہے بلکہ دنیا کے تمام حکمرانوں کیلئے قدرت کی طرف سے یہ سبق ہے جن میں ہندوستان، اسرائیل، امریکہ اور پاکستانی سیاستدان بالخصوص شامل ہیں کہ انسانوں پر ظلم بند کرو یہ ایک وارننگ ہے اور اس کیلئے دعا سے زیادہ اپنے رویوں کی تبدیلی بھی شامل ہے، مودی کیلئے سبق ہے اور دوسرے طاقتور ملکوں کو تنبیہ کہ کمزور ملکوں کو انصاف دو پچھلی کئی دہائیوں سے فلسطین، کشمیر، شام اور عراق کے نہتے شہریوں پر جو ظُلم بپا ہے کرونا وائرس سے وہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ شام کی 13 سالہ امینہ ابو قریش جو لندن میں ہجرت کر کے جا بسی ہے اپنے نوحے میں جس کا نام شام کی فاختائیں، ہے کہتی ہے میں اپنا وطن اور وہ سب کچھ جو میرے پاس تھا اور ہے مجھے یاد نہیں میرے ملک کی نرم برف گرم دوپہر یاسمین کی خوشبو خزاں ارو اس کی زرد سرخ پتیاں فضاءمیں اُڑتی ہیں میری دادی کی چھت پر باغیچہ بیلوں پر لدے انگور وہ چڑیاں اور فاختائیں شام کے امن کی اب کہیں نہیں۔
٭٭٭