ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
بیماریوں اور وباﺅں کی ایک طویل فہرست ہے جن سے انسان صدیوں سے لڑتا آیا ہے، ان میں سے بہت سی بیماریوں کو میڈیکل سائنس شکست دے چکی ہے اور کچھ کی ویکسین ایجاد ہو چکی ہے جسے استعمال کر کے پولیس جیسے مرض سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے، کالی کھانسی، خناق، ٹی بی، ٹائیفائید جیسے امراض جو انسان کیلئے وبال جان بن جاتے تھے آج اینٹی بائیوٹک اور ویکسین کے سامنے قریباً بے بس ہو چکے ہیں۔ بیسویں صدی میں میڈیکل سائنس کی سب سے بڑی دریافت اینٹی بائیوٹک ہے، پنسلین کی ایجاد سے اِس کا آغاز ہوا، اس سے پہلے لوگ مختلف قسم کے متعدی امراض میں مبتلا ہو کر اسپتال میں ایڑھیاں رگڑا کرتے تھے۔ انسان کے علم میں یہ بات تو تھی کہ بیکٹیریا اور فنگس کے مرکبات مل کر اینٹی بائیوٹک بناتے ہیں جو بیماری پیدا کرنے والے بیکٹریا کا خاتمہ کر سکتے ہیں مگر صحیح معنوں میں پہلی اینٹی بائیوٹک بنانے کا سہرا سر الیگزینڈر فلیکنگ کے سر جاتا ہے جنہوں نے پینسلین دریافت کر کے انسانیت پر ایک احسان عظیم کیا، دوسری جنگ عظیم میں اس اینٹی بائیوٹک نے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچائیں، آج بھی پینسلین کو بہترین اینٹی بائیوٹک مانا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وبائی امراض اور بیماریاں اب بھی موجود ہیں جن کا علاج تاحال دریافت نہیں کیا جا سکتا جیسے ایچ آئی وی اور تازہ ترین کرونا وائرس مگر یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ بہت سی وبائی امراض جیسے سوائن فلو، ایبولا، زیکا وائرس یا سارس، اب اُن کا خطرہ اتنا نہیں رہا جتنا غلغلہ چند سال پہلے تھا۔ ایچ آئی وی یا کینسر کا شکار ہونےوالے افراد جنہیں تیس چالیس سال پہلے تک یقینی موت کا سامنا ہوا کرتا تھا اب مہنگا ہی سہی پر اتنا علاج ضرور کروا سکتے ہیں کہ زندہ رہ سکیں اور کینسر کی تو کئی قسموں کا مکمل علاج بھی ممکن ہے، بے شمار مریض صحت یاب ہو کر بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔
کرونا وائرس کی آدھے درجن سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں، جب اسے خوردبین کے ذریعے دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے اُبھار نظر آئے جو عموماً تاج (کراﺅن) جیسی شکل بناتے ہیں۔ اسی بناءپر انہیں کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہا جاتا ہے۔
اب بھی زیادہ تر جاندار مثلاً خنزیر اور مرغیاں ہی اس سے متاثر ہوتے دیکھے گئے ہیں لیکن یہ وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو متاثر کر سکتا ہے اور کرتا رہا ہے۔ 1960ءکے عشرے میں کرونا وائرس کا نام دنیا نے سنا اور اب تک اس کی کئی تبدیل شدہ اقسام (مجموعی طر پر 13 ) سامنے آچکی ہیں جنہیں اپنی آسانی کیلئے کرونا وائرس کا ہی نام دیا گیا ہے تاہم ان کرونا وائرس کی 13 اقسام میں سے سات انسانوں میں منتقل ہو کر(جاری ہے)
انہیں متاثر کر سکتی ہیں۔ اس سال چین کے شہر ووہان میں ہلاکت خیز وائرس کو NCOV-2019 کا نام دیا گیا ہے جو اس وائرس کی بالکل نئی قسم ہے۔
یاد رہے کہ کرونا وائرس کی ذیلی اقسام میں سے انسانوں کیلئے تین ہلاکت خیز وائرسوں میں سے دو چین سے پھوٹے ہیں۔ اول، سیویئرریسپریٹری سنڈروم (سارس)، دوسرا مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) مشرق وسطیٰ سے اور اب تیسرا 2019ءnCoV بھی چین کے شہر ووہان سے پھیلا ہے۔
ووہان وائرس سانس کی اوپری نالی پر حملہ کرتے ہوئے سانس کے نچلے نظام کو متاثر کرتا ہے اور جان لیوا نمونیا یا فلو کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس سے قبل 2003ءمیں سارس وائرس سے چین میں 774 افراد ہلاک اور 8000 متاثر ہوئے تھے۔ مرس اس سے بھی زیادہ ہولناک تھا۔
چینی محکمہ صحت نے ووہان سے نمودار ہونےوالے وائرس کا جینوم (جینیاتی ڈرافٹ) معلوم کر کے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دو ایا ویکسین سامنے نہیں آسکی ہے کیونکہ دسمبر 2019ءمیں نیا وائرس سامنے آیا ہے اور ماہرین اس کی ظاہری علامات سے ہی اس کا علاج کر رہے ہیں۔ اگرچہ چین کا دعویٰ ہے کہ وائرس سے متاثر ہونےوالے 4 فیصد ہی ہلاک ہوئے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس سے متاثر 25 فیصد مریض شدید بیمار ہیں۔
اب تک چین میں 26 افراد اس وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں اور متاثرین کی تعداد 830 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ووہان اور دیگر دس شہروں میں عوامی ٹرانسپورٹ بند ہے اور لوگ گھروں تک محصور ہو چکے ہیں۔ تاہم نئے قمری سال کی تقریبات پر لاکھوں کروڑوں لوگ باہر نکلتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ وائرس سے شکار ہونےوالے 4 فیصد افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے کرونا وائرس کی ہلاکت خیز شدت کم ہے۔ دوسری جانب یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں انفیکشن امراض کے ماہر ڈاکٹر مارک وول ہاﺅس اس سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاید یہ اوسط درجے کے انفیکشن اور سارس کے درمیان کی شدت رکھتا ہے جس سے زائد اموات ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وائرس خود کو مزید تبدیل کر لے تو شاید زیادہ مہلک ہو سکتا ہے۔
کرونا وائرس سے کیسے بچا جائے؟ بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے، سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں، کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں، کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا جائے۔ کسی کی بھی آنکھ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کیجئے۔
٭٭٭