شبیر گُل
فضا میں افسردگی۔ گلی اور بازار سنسان۔نہ پرندوں کی چہک، نہ کوئل کی کوکو، نہ کبوتروں کی ا±ڑان اور نہ ہی۔
پرندوں کی چہچہاہٹ بھی انسانی زندگی کی روانی سے ہے۔
واہ میرے اللہ۔میرا جسم تیری مرضی۔
قیامت سے پہلے قیامت (کرونا ، کرونا)
باپ بیٹے سے خوفزدہ،۔ماں بیٹی سے۔
خاوند بیوی علیحدہ۔بھائی بھائی ملنے کو محتاط
جھپیاں، پپیاں ختم۔نقاب پوش ہر کونے پر
عاشق معشوق غائب ،بے حیائی پر قدرتی پردہ
کشمیر میں سات ماہ کے کرفیو پر انسانیت سوئی رہی۔سیریا میں تاریخ انسانی کے سب سے بڑے قتل عام پر دنیا ٹس سے مس نہ ہوئی۔ انڈیا میں سینکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
اللہ نے مظلوموں کی ہاہ سن کر پوری دنیا میں کرونا کی شکل میں عذاب اور قہر خداوندی برسا دیا۔
“آگے گڑھا پیچھے کھائی”کرونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستانی ،انڈین اور بنگالی دوکانداروں نے اشیاءخ±ردونوش کی قیمتیں چار گنا سے لیکر دس گنا بڑھا دی ہیں۔
لیکن قیمتوں جو بڑھانے میں امریکن بھی پیچھے نہ رہے۔ تہذیب، اخلاقیات غربت کی رو میں بہہ گئے۔ فیس بک ڈاکٹرز۔فیس بک مفتیفیس بک لیڈر اور فیس بک علامے آجکل بہت م±تحرک ہیں
“اللہ ہم سے ناراض “
آئیے ایکدوسرے کی مدد کریں۔ اللہ فرماتے ہیں جس نے ایک انسان کی جان بچائی۔ ا±سنے پوری انسانیت کی جان بچائی۔
خانہ خدا بند۔ فارس۔ روم۔ ویران
جاپان ،یورپ اور امریکہ کی ترقی کرونا وائرس کے آگے بے بس۔ سانس اور مغربی ایجادات بے کار۔ قدرت کے آگے نہ کسی روز ہے اور نہ ہی بس چلتا ہے۔
کرونا ایک نئی دنیا کی بنیاد ہے۔س±پر مارکیٹوں میں لمبی قطاریں،کئی مقامات پر لائن توڑنے پر لڑائیاں اور جھگڑے دیکھنے میں آئے۔ تہذیب یافتہ قوم کی ہر جگہ گتہم گتھا ہونے اور بے صبری نے قلعی کہول دی۔ ابھی تو صرف خوراک اکٹہی کرنے پر جھگڑے ہو رہے ہیں۔ اسلحہ خریدا جا رھا ہے۔ اگر یہاں خوراک کی کمی ، قحط سالی ہو تو اندازہ کریں اس قوم کی تہذیب کہاں جائے گی۔
تھرڈ ورلڈ کنٹری کے مفلوک الحال غریبوں کو جب خوراک نہ ملے۔ تعلم نہ ملے۔ وہ تہذیب کہاں سے لائیں۔جس ہمارے دوست اپنے ملکوں کی غربت کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ انکی تہذیب کے گ±ن گاتے ہیں۔ وہ انکی تہذیبوں کے چند نمونے ملاحظہ کریں جو سٹوروں اور س±پر مارکیٹوں پر نظر آرہے ہیں۔ تمام بڑے سٹوروں پر پولیس کی بھاری نفری موجود ہے۔
میری دوستو ں سے گزارش ہے کہ اپنے اردگردمسلم فیملیز کا خصوصا خیال رکہیں۔کسی فیملی جو گراسری اور فوڈ چاہئے۔ آپ اکنا جو کال کیجئے۔ انکے رضاکاروں نے گھروں میں پہنچانے کا اہتمام بھی کیاہے
بنگلہ کمﺅنٹی ،افریقن کمﺅنٹی، یمنی کمﺅنٹی، ایفرو امریکن،ہسپانک کمﺅنٹی ،جیوش کمﺅنٹی،البینین کمﺅنٹی۔کی لیڈرشپ مختلف مقامات پر اکنا ریلیف کے ساتھ وائلنٹیرز سروس میں کھڑی نظر آئی۔
فادر جے گ±ڈنگ، پاسٹر ڈاکٹر جی کیلنڈر۔ رابی کیتھ، امام شفیق۔ امام حمود۔ امام شیخ داو¿د۔ امام ش±عیب۔نے گراسری کی تقسیم آسان بنانے کے لئے چرچ اور مساجد کے دروازے کہول دئیے۔
لوگوں کو گھروں میں گراسری سپلائی کے لئے سپینش نو مسلم، سسٹر سمیرا، سسٹر ذینب، سسٹر تاشا، ایلس نیلاج، طاہر ، جارج، شبیر، رضوان۔ فدل، منجور چوہدری، گذشتہ دس دن سے ڈور ٹو ڈور سروس فراہم کر رہے ہیں۔۔
مئیر آفس برانکس کے انچارج برادر فامود
کمپٹرولر آفس برانکس کی انچارج ماریل ڈی لا کروز، گورنر آفس سے جوائن چوئی۔
اسمبلی وویمن ناتالیہ فریننڈس۔ اسمبلی مین حوضے رویرا۔کونسل مین مارک جونائی۔اسٹیٹ سینیٹر بیاجی،کانگریس وویمن
بورو پریذیڈنٹ روبن ڈیاز۔ کونسل مین فرنیڈو کبریرا۔ کونسل مین اینڈی کنگ۔سینٹر لوئیس س±پلاویدا۔ نے پرسنل کالیں کرکے مشکل گھڑی میں اکنا ریلیف کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔کسی بھی غیر یقینی صورت حال پر کمﺅنٹی کے ساتھ انگیج رھنے اور سیفٹی کی اہمیت پر زور دیا۔برانکس پولیس چیف۔ 43 پریسنٹ چیف نے ٹیکس میسج کیا اور اکنا ریلیف گراسری ڈسڑی بیوشن پر شکریہ ادا کیا۔
49 پریسنٹ چیف۔برانکس پٹرولنگ چیف پینٹو۔43پریسنٹ چیف کارلوس نے ٹیلفون کرکے ریلیف سرگرمیوں پر اکنا ریلیف اور مسلم کمﺅنٹی کا شکریہ ادا کیا۔
میں اپنی کمﺅنٹی کی چند افراد کا شکریہ ادا کرنا اور نام لینا ضروری سمجھتا ہوں۔کہ جنہوں نے صرف برانکس میں ہزاروں ڈالرز کی گراسری کا اہتمام کیا۔ م±نیر پاشا۔نعیم بٹ، راجہ ساجد، عامر رزاق،سسٹر نور، برادرخلیل۔ یسن الشیب ، جمال الحمادی نے کئی ٹرک گراسری اکنا کو ڈونیٹ کی۔
گزشتہ تیرہ دن میں برانکس میں تقریباً 5000فیملیز کو گراسری تقسیم کی جاچکی ہے۔اخلاقیات کا درس دینے والے بڑے اسٹوری اور مارکیٹوں میں گراسری کے حصول کی لئے گتھم گتھا ہیں۔
اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کا اندازہ بھوک اور مشکل میں کیا جاتا ہے۔ ہمارے جو لوگ امریکہ اور یورپ میں آکر ہماری تہذیب کا موازنہ ان سے کرتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوںذرا کھڑکی کھول کر ان کے اخلاقی رویوں کو محسوس کریں۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مسلمان غربت، افلاس، اور بھوک ہونے کے باوجود، مغربی اقوام کی تہذیب سے بدرجہ اتم بہتر ہیں۔ اکنا ریلیف نیویارک سٹی میں روزانہ کی بنیاد پر برانکس اور مین ہیٹن میں ہاٹ میل ڈرائیو بھی شروع کر رہی ہے۔انکے رضاکاروں کو دل کی آرھا گہرائیوں سے سلام اور دعاء۔
کرونا وائرس انتہائی خطرناک مرض ہے۔لوگ گھروں میں رہیں۔تو اموات کی شرح بہت کم ہو سکتی ہے اسوقت تک نیویارک میں تقریبًاپچپن کے لگ بھگ لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں۔ تین پاکستانی اور دو بنگالی بھی اس میں شامل ہیں۔ ہمارے جذباتی اور جوشیلے علماءتوبہ و استغفار کے نام پر جوش دلا کر لوگوں کو گھروں سے باہر نکال رہے ہیں۔بچے،عورتیں، مرد، جوان، بوڑہے اکٹہے ہوں تو وائرس وسیع پیمانے پر پھیل سکتا ہے۔اموات فی یوم ایک ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ طبی اصولوں کی خلاف ورزی کر کے یا کروا کے توبہ و استغفار کوئی دانشمندی نہیں۔ اللہ تعالی نے طبی ا±صولوں کو ہی غالب رکھا ہے۔ کیونکہ یہ طبی اصول بھی اللہ کا ہی جاری کردہ نظام ہے اور یہ تدبیر بھی تقدیر کا ہی ایک حصہ ہے۔
لہذا ہمیں ان واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہر بندے کی جان بہت قیمتی ہے، اسے تقدیر کا جوش دلا کر خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اگر حکومتِ وقت ڈاکٹرز کے مشورہ سے اجتماعاتِ جمعہ پر بھی پابندی لگاتی ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے اور اس پر من و عن عمل کرنا چاہیے۔
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ مئیر آفس ، گورنر آفس اورسٹی کمپٹرولر آفس نے اکنا کے کام کو سراہا اور مشکل کی بڑی میں پارٹنرشپ کے طور پر کام کی آفر کی ہے۔
نیویارک سٹی کی تقریباً تمام پینٹریز بند ہیں۔ کیونکہ انکے پاس زیادہ تر لوگ تنخوادار ہیں۔ اکنا ریلیف کو اللہ رب العزت بے لوث وائلنٹیرز مہیا کئے ہیں۔ جو صرف رضائے الہی کے حصول کے لئے میدان عمل میں ہیں اللہ سے دعاءکریں اللہ کریم تمام رضاکاروں کی خفاظت فرمائے۔(آمین)آج پورے نیویارک میں ایک بجے مسلمانوں نے اپنے گھروں ،!۲! اور بازازروں میں اذانیں دیں اور دعائیں کیں کہ اللہ وائرس کو ہم پر سے اٹھا لے۔ آمین
٭٭٭