کامل احمر
آج کل پاکستان میں میڈیا فرنٹ پر پی ٹی وی پر دکھائے جانے والے ترکش ڈرامے سیریل ”التغرل“ کا چرچہ عام ہے جس نے اس کے مخالفوں سے زیادہ اس کے چاہنے والوں نے اسے گھر گھر پہنچا کر مقبولیت کی بلندی پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کیلئے ہم عمران خان کو خراج عقیدت پیش کرینگے جس نے ایک صدی سے زیادہ مضبوط میڈیا، سینما یا فلم، کی مدد سے آنے والی نسلوں کی تربیت کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔ ہر چند علماءاور فلم سے غافل لوگ اس بات کو پسند نہیں کرینگے لیکن اگر مغرب اس میڈیا کے ذریعے دنیابھر میں اپنی تاریخ، پیغام اور تفریح پہنچا سکتا ہے تو ہم اس کا فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکتے۔
التغرل، سیریل جو 100 قسطوں پر مبنی ہے پہلے ہی لیبیا کے مصطفی اخد نے جو ہالی ووڈ میں کئی فلمیں بنا چکے تھے فلم کو اسلام کی تاریخ سے روشناس کرانے کیلئے 1977ءمیں The Message کے نام سے خوبصورت فلم بنائی تھی جو پاکستان میں ریلیز نہیں ہو سکی، مذہب کے پیشواﺅں کی مخالفت کی وجہ سے، اس کے بعد نو گیارہ کے تناظر میں ایران کے ماجد مجیدی نے مغرب کو سبق دینے کیلئے بڑی لاگت سے اسلامی تاریخ کو حضورﷺ کی پیدائش سے ان کی وفات تک تین حصوں میں بنا کر پیش کرنے کا بیڑہ اٹھایا تاکہ مغرب کو اسلام اور اس کی تعلیم کے متعلق بتایا جائے۔ دنیامیں اسلام کے مخالفین اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کیلئے جواب تھا کہ فلم کو ذریعہ بنایا جائے افسوس کہ پہلا پارٹ ریلیز ہوا اور فتوے آنے شروع ہو گئے فلم کے میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمن کے خلاف فتویٰ آگیا کہ وہ اسلام کے دائرے سے خارج اور اسے دوبارہ کلمہ¿ شہادت پڑھنا پڑھے گا اور نکاح بھی دوبارہ کرنا پڑے گا۔ ہندوستان کے مفتی صاحبان نے فتویٰ دیا کہ اس فلم کو دیکھنا کُفر ہے پاکستان میں بھی اس کی نمائش نہ ہو سکی ماجد مجیدی کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔ا سکے حوصلے پست ہو گئے اور بقیہ دو پارٹ نہیں بن سکے ،یوں کہیے کہ ہم نے دوسرا موقعہ بھی ضائع کر دیا۔ تیسرا موقع قطر ٹی وی نے حضرت عمرؓ پر UMER کے نام سے 26 اقساط پر مشتمل ایک بے حد خوبصورت فلم بنا کر ٹی وی پر پیش کر دی ۔اس کی لاگت سو ملین ڈالر سے زیادہ تھی اور اب اسے اردو میں ڈب کیا گیا ہے یہ بھی حضورﷺ سے پہلے اور ان کی وفات تک کے حالات پر جو عرب دنیا میں تھے مبنی ہے اور بڑی خوبصورتی سے تاریخ کو فلم کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے ۔سیریل التغرل کے بعد ممکن ہے کہ اب اسلام اور اس سے متعلق کرداروں پر مبنی سیریل یا فلم بننا شروع ہو جائیں۔
التغرل کا جہاں گھر گھر میں چرچا ہے وہاں فتوے بھی پہلے ہم بتاتے چلیں کہ یہ سیریل 2014ءسے شروع ہو کر 2019ءتک دکھایا گیا تھا اور صدر اردگان نے اسے بے حد پسند کیا تھا ،ساتھ ہی مالی اعانت بھی کی تھی اس کے بنانے میں جو ضروری تھا کہ فلم کے پروڈیوسر محمد بزداغ نے جب اسکرپٹ لکھا تو ترکی کی وزارت اطلاعات کو دکھایا گیا کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے بانی یعنی عثمان (پہلے بادشاہ) کے والد التغرل کی ظلم و ستم اور اسلام کے پرچم کو بلند کرنے کی جدوجہد کی کہانی تھی۔ ترکی جو کمال اتاترک کے بعد مغربی اثر کے تحت تھا لباس اور زبان کے ا عتبار سے اور مغرب کی طرف مائل تھا۔ اردگوان نے ایک نئی روح پھونک دی اسلامی قدروں کےساتھ اور یہ سیریل ایک سنگ میل ثابت ہوئی جس میں 590 اداکاروں نے اداکاری سے مناظر کو حقیقت میں بدلا ہے۔ متینگ و نے کی ہدایت کاری ہالی ووڈ کے کسی بھی بڑے ہدایت کار سے اعلیٰ پائے کی ہے موسیقی ایسی کہ ہر منظر کو سحر انگیز اور زندہ کر دے۔ ایک قسط کے بعد ہی دیکھنے والا اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اور کرونا وائرس کی وجہ سے لوگ گھروں میں بند اس سیریل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس فلم کیخلاف جو پروپیگنڈہ کرنے والوں کیلئے لکھتے چلیں کہ وہ سب کچھ وہ کرتے ہیں جو کافر کرتا ہے فون کے استعمال سے ان کی بنائی کار اور جہاز تک کا استعمال کفر نہیں لیکن اسلامی کرداروں پر مبنی جو ہماری نئی نسل کیلئے اشد ضروری ہے کہ وہ سپر مین اور بیٹ مین کے حصار سے نکلیں کفر ہے، مدنی، ٹی وی کے مالک محمد الیاس عطار جو عطاری کے نام سے مشہور ہیں سیریل کے مخالفوں میں سے ہیں کہ ان کے ٹی وی کی ریٹنگ کم ہو گئی ہے (جو پہلے ہی تھی) جامعہ بنوری کے علامہ محمد یوسف کا کہنا ہے کسی بھی جائز مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ناجائز طریقہ درست نہیں۔ انہوں نے فتویٰ دیا کہ فلم دیکھنا شرعاً حرام ہے ہم نے اس سیریل کے نیویارک میں مقیم علماءاور مفتی حضرات اور فلم کی شخصیات سے پوچھا ہے، ان کے خیالات درج ذیل ہیں۔سب سے پہلے مفتی عبدالرحمن قمر جو شمالی امریکہ میں جانی پہچانی شخصیت ہیں کا کہنا تھا پاکستان میں کچھ علماءاپنے مقاصد کیلئے ہر وہ چیز جائز قرار دے دیتے ہیں جو ان کے فائدے کی ہو۔ انہوں نے بھی مدنی ٹی وی کے الیاس قادری عطاری کیلئے فرمایا ان کا کہنا تھا کہ اس سیریل کو ہر پاکستانی کو دیکھنا چاہیے اس میں نئی نسلوں کیلئے بہت کچھ ہے ہم مغرب کی بنائی ہر چیز سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو اسلامی کرداروں پر مبنی سیریل کو کیوں نہیں دیکھا جاسکتا، سینما آج کل کے زمانے میں ایک طاقتور میڈیا ہے ،اس کا فائدہ اٹھائیں نیویارک کے ہی عالم دین مولانا تصور گیلانی (اسلامک اسکالر) اور مقبول شخصیت نے کہا، آج کے دور میں ہمارا معاشرہ لازمی طور پر الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہے ۔میرے نزدیک ہر وہ فلم جس میں اسلام کی تعلیم کا کوئی پہلو نکلے یا تاریخی طور پر انبیائے کرام یا دیگر مقدس ہستیوں کے حالات زندگی کے حوالے سے روشناس کروانے کی کوشش کی گئی ہو وہ دیکھنی جائز ہے۔
فلم،ا دب، اور مصوری کے میدان میں جنہوں نے فلمیں بھی بنائی ہیں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اس فلم کا چرچہ عام ہے اور یہ سیریل بڑے دلچسپ انداز میں فنی مہارت اور خوبصورت طریقہ سے بنائی گئی ہے ،میں اس کے ہدایتکار اور اسکرین پلے رائٹر محمد بزدوغ کو خراج تحسین پیش کرونگا۔ پاکستان ایسی سیریل بنا سکتا ہے اور بنانی چاہئیں جو نوجوان نسل کو سبق، پیغام اور اسلامی شعور دے سکے۔ اب ہم اس سیریل کے ایمان تازہ کرنے والے ڈائیلاگ لکھتے ہیں،جب تک ہم اللہ کے راستے پر چلیں گے، کوئی بھی ہمیں ہمارے گھٹنوں کے بل نہیں گرا سکتا، میں غدار کو معاف نہیں کرونگا ،چاہے وہ میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو، مایوسی ہمارے لئے حرام ہے اور ہمیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے، یہ بتاتے چلیں کہ اس فلم کی اردو میں بے داغ ڈبنگ نے چار چاند لگا دیئے ہیں۔
٭٭٭