”شراب ، شباب کا وقت گزر چکا “

0
304
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

قارئین کورونا وائرس کی سرنگ میں طویل اندھیرے کے بعد اب ہمیں سرنگ کے اختتام پر پہنچنے پر روشنی کی کرنیں چمکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیںلیکن ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا کیونکہ ٹنل سے باہر نکلتے ہی ہمیں ایک مشکل اور سخت ترین دورکا سامنا کرنا ہوگا ،اس وقت ہم کورونا وائرس کی وجہ سے سینکڑوں جانوں کو گنوا چکے ہیں اور کھربوں ڈالر کا نقصان ہماری معیشت کو اوندھے منہ لے ڈوبا ہے جس کی ایک وجہ بروقت فیصلوں کا نہ ہونا بھی ہے، نیویارک کے میئر ڈی بلاسیو نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی اپنانے میں بہت دیر کر دی ، وائرس کے پھیلاﺅ سے ایک دو ہفتے قبل ہی لاک ڈاﺅن جیسی صورتحال سامنے آنی چاہئے تھی جس سے نیویارک میں 80فیصد اموات کو روکا جا سکتا تھا ، ہیلتھ کمشنر ڈاکٹر ٹام فرائیڈن نے بھی اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ نیویارک کے میئر کو 13مارچ کو عوام کو واضح طور پر پیغام دینا چاہئے تھا کہ وہ اپنی زندگیوں کے بچاﺅ کے لیے ہنگامی اور احتیاطی تدابیر کو یقینی بنائیں لیکن میئر ڈی بلاسیو 16مارچ کو اپنے جم میں ورزش کرتے پائے گئے تھے ۔
اب ماضی کے تمام نقصانات کا ازالہ کرنے اور شہر یوں کے مستقبل کو دوبارہ سے روشن بنانے کے لیے ہمیں ایک قابل اعتماد اور متحرک قیادت کی ضرورت ہے ، خاص طور پر اقتصادی ابتری کو بہتر بنانے اور معاشی صورتحال کو مزیدفعال بنانے کے لیے تجربہ کار قیادت کی ضرورت ہے ، آج شہر کے حالات ماضی کی عکاسی کرتے دکھائی دے رہے ہیں ،میں اس موقع پر سن 1975 کی مثال دینا چاہوں گا کہ جب بینک کرپٹسی عروج پر تھی، معاشرہ زبوں حالی کا شکار تھا، لوگ روزگار سے محروم تھے تو اس موقع پر ہیوج کیری کا بیان آج بھی تاریخ میں رقم ہے جب اس نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شراب اور شباب کا وقت ختم ہو چکا ہے، اب مشکل دور سے گزرنے کا وقت آن پہنچا ہے ، یہ کسی صورت بھی آسان نہیں تھا ۔1970کے دوران نیویارک میں انسانی زندگی ابتری سے دوچار تھی اور کوئی بھی سرکاری عہدیدار اور ملازم اپنی تنخواہوں میں سے کٹوتیوں کے لیے تیار نہیں تھا لیکن اس کے باوجود سب نے درد محسوس کرتے ہوئے مشکل فیصلے کیے ، اپنی محنت کی کمائی کی قربانی دی اور آج کورونا وائرس نے نیویارک کو پھر اسی سطح پر لا کھڑا کیا ہے اگر 1970کے اعدادو شمار کی بات کی جائے تو اس وقت شہر میں آبادی آج کے مقابلے میں بہت کم تھی اور بے روزگاری کی شرح 13فیصد کے قریب تھی اور آج بے روزگاری کی شرح 23فیصد سے بڑھ رہی ہے ، 1970کی قیادت نے مدبرانہ فیصلوں سے شہریوں کے مستقبل کو روشن کیا ، آج ہمیں پھر ایسی ہی قیادت چاہئے ۔ملک میں اس وقت اساتذہ ، پولیس آفیسرز ، سینیٹری ورکرز ، ہیلتھ ورکز سب اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں ،اللہ تعالیٰ کے عذاب میں تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں ، دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جس کی عبادت گاہ لوگوں کے لیے کھلی ہے ، اسلام ، عیسائیت ، ہندو گو کہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے صرف گھروں میں محصور ہیں اور کوئی بھی عبادت گاہوں کا رخ نہیں کر رہا ہے ، نیویارک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی بھی اس عذاب میں مبتلا ہے ، اب تک سینکڑوں پاکستانی نژاد امریکی شہری اپنی جان گنوا چکے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کورونا عذاب جن کے قریب سے بھی نہیں گزر سکا ہے ، ایسے لوگ اب بھی اللہ تعالیٰ سے غافل ہیں اور شیطانیت پر عمل پیرا ہو کر غفلت میں زندگی بسر کررہے ہیں ، میری پہچان میں کچھ ایسے پاکستانی ہیں جوکہ شراب کے نشے میں کالم تحریر کرتے ہیں اور اپنی صحافت پر شراب کی نمایاں چھاپ چھوڑتے ہیں اور پھر شرمندگی میں کسی سے آنکھ ملانے کے قابل بھی نہیں رہتے ہیں ، کورونا نے انسانوں کو اپنی سوچ میں تبدیلی کا ایک موقع دیا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے نیکی اور بھلائی کی طرف لوٹ آﺅ ، گھروں میں محصور لوگوں کی اکثریت عبادات میں مشغول ہے جس سے بچوں میں بھی عبادات کا شعور اجاگر ہو رہا ہے لیکن کچھ گھس بیٹھیے ایسے بھی ہیں جوکہ ابھی بھی اپنی روش کو تبدیل کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں ،ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے ہدایت کے طلبگار ہیں ۔
تو بات ہو رہی تھی کہ کورونا سے کس طرح نمٹا جائے تو اس موقع پر ہماری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ کونسے ایسے اخراجات ہیں جن کو بجٹ سے کم کیا جا سکتا ہے اور کونسے ترقیاتی منصوبے ایسے ہوں گے کہ جن سے نہ صرف روزگار کے مواقع پید اہوں بلکہ معاشرتی ترقی بھی کھل کر سامنے آئے، اگر گزشتہ کچھ برسوں کی بات کی جائے تو سالانہ ترقیاتی بجٹ کھربوں تک جاپہنچے ہیں جن سے منتخب نمائندگان خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ،ان پیسوں کو علاقائی ترقیاتی کاموں میں خرچ کر کے اپنے ووٹرز کی تعداد بڑھاتے ہیں ، خیر ہمارے شہر نیویارک میں کاروباری ، تعلیمی اور معاشی سرگرمیوں کو دوبارہ بحال کرنے کی ذمہ داری یقینی طور پر شہر کے میئر پر ہی عائد ہوتی ہے ، کورونا سے نجات اور معمولات زندگی کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے میئر کو جادوئی کمالات دکھانا پڑیں گے بلکل ایسی طرز پر وفاقی حکومت کو بھی اقدامات کرنا پڑیں گے کیونکہ کورونا وائرس نے ملکی معیشت اور سماجی نظام کو کافی گہرا گھاﺅ لگایا ہے جس پر مرہم رکھنے میں کچھ وقت لگے گا ، کورونا وائرس سے اب تک ملک بھر میں 14لاکھ کے قریب کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد82ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ، مجموعی طور پر 2لاکھ 70ہزار کے قریب لوگ کورونا سے صحت یاب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں ،نیویارک میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 27ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے اور اکانومی کی بات کی جائے تو ملکی سٹاک مارکیٹ تاریخی گراوٹ کا شکار ہے اور اس وقت ملک بھر میں 3کروڑ سے زائد لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور حکومت مجبور ہے کہ گھروں میں محصور لوگوں کو امدادی چیک بھجوائے ، ایسی صورتحال سے نکلنے کے لیے واقع ہی قابل قیادت کی سختی سے ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشکل آزمائش سے نکلنے کی توفیق عطافرمائے ، آمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here