”امریکی خاتون صدر”

0
21

”امریکی خاتون صدر”

امریکہ کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہو ا ہے کہ کوئی عورت صدارت کے منصب پر پہنچی ہوکیونکہ امریکہ کے عوام کسی صورت بھی عورت کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، امریکی عوام اگر عورت کی حکمرانی کو تسلیم کرتے تو ہیلری کلنٹن بھی صدارت کا عہدہ سنبھال چکی ہوتی ، کملا ہیرس بنیادی طور پر بھارتی نژاد شہری ہیں ، ان کا صدارت کے امیدوار کے طور پر سامنے آنا اپنی جگہ بہت بڑا چیلنج ہے جبکہ الیکشن میں انہیں بہت برُی طرح شکست ہونے کا امکان ہے ، بہت ممکن ہے کہ ڈیموکریٹس پارٹی کے لوگ اگر کوئی اور امیدوار نہیں ملا تو آخری دنوں میں بائیڈن کو واپس لانے میں ہی کامیاب رہیں ۔ جو بائیڈن نے امریکی انتخاب کا رخ بدل دیا ہے، ہفتوں تک سختی کے ساتھ صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار رہنے پر اصرار کے بعد بلآخر وہ دباؤ کے سامنے جھک گئے اور دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔کملا ہیرس کے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امیدوار ہونے کے امکانات کو جو بائیڈن کی توثیق سے بہت تقویت ملی ہے۔صدر بائیڈن نے ان کی مکمل حمایت کی ہے اور چار سال قبل انھیں نائب صدر بنانے کے اپنے فیصلے کو اب تک کا بہترین فیصلہ قرار دیا ہے۔ان کی حمایت پر کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ انھیں بائیڈن کی توثیق حاصل کرنے پر فخر ہے اور وہ نامزدگی جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کے دن امریکی عوام کو اس وقت سرپرائز دیا جب انھوں نے کئی ہفتوں تک صدارتی انتخاب سے دستبردار ہونے کے مطالبات کی مزاحمت کرنے کے بعد اچانک یہ اعلان کیا کہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اس مقابلے میں اپنی جگہ نائب صدر کملا ہیرس کو ڈیموکریٹ پارٹی کا امیدوار نامزد کر رہے ہیں۔جو بائیڈن اپنی باقی صدارتی مدت مکمل کریں گے لیکن اسی سال صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گے۔ ان کے اس فیصلے نے ڈیموکریٹک پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا ہے جسے اب صرف ایک ماہ کے اندر ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا امیدوار چننا ہو گا۔امریکہ میں 1968 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب صدر لنڈن بی جانسن نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوسری بار صدارتی امیدوار نہیں بنیں گے۔صدر بائیڈن پہلے ہی اپنی جماعت کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے درکار ووٹ حاصل کر چکے تھے۔ ایسے میں ان کی جانب سے کملا ہیرس کی نامزدگی موجودہ نائب صدر کو سب سے واضح امیدوار بنا سکتی ہے تاہم اب ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ایک نیا امیدوار چننے کا راستہ موجود ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کنونشن 19 اگست کو شروع ہو گا جس میں ممکن ہے کہ کوئی نیا امیدوار سامنے آ جائے اگر کسی بھی امیدوار کو تقریباً چار ہزار ڈیلیگیٹس (جو پارٹی کے ہی اراکین ہوتے ہیں) میں سے اکثریت نہیں ملتی تو ایک دوسرا مرحلہ بھی ہو سکتا ہے جس میں سپر ڈیلیگیٹس شامل ہو جائیں گے جو پارٹی رہنما اور منتخب اراکین ہوتے ہیں۔ کسی بھی امیدوار کو نامزدگی حاصل کرنے کے لیے 1976 ووٹ درکار ہوں گے۔بائیڈن کی دستبرداری کے مطالبات کے ساتھ ہی ان کے متبادل کے نام پر بھی غور شروع ہو گیا تھا اور ایسے میں کئی نام سامنے آ چکے ہیں۔اب تک کئی ڈیموکریٹ کملا کی حمایت کا اعلان بھی کر چکے ہیں جن میں کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسوم بھی شامل ہیں۔ یاد رہے ان کا نام ممکنہ امیدوار کے طور پر لیا جا رہا تھا۔انھوں نے ایکس پر لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے کملا سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ٹرانسپورٹیشن سیکریٹری پیٹ بٹیگیگ اور پنسلوینیا کے گورنر جوش شپیرو نے بھی کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ان کے علاوہ ہیلری کلنٹن اور ان کے شوہر سابق صدر بل کلنٹن سمیت سابق سیکرٹری خارجہ جان کیری بھی کملا کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں اگر کملا ہیرس اپنی جماعت کی صدارتی نامزدگی حاصل کر لیتی ہیں تو یہ نام ان کے نائب صدر کے امیدوار بھی ہو سکتے ہیںایسا بھی ممکن ہے کہ زیادہ تر ڈیموکریٹس جو بائیڈن کی بات مانتے ہوئے کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیں تاکہ ڈیموکریٹک کنونشن سے ایک ماہ سے بھی کم عرصے پہلے ابھرنے والی غیر یقینی صورتحال سے بچا جا سکے۔وہ جانشینی کی قطار میں سب سے آگے ہیں۔ صدارتی ٹکٹ پر پہلی سیاہ فام خاتون کو نظر انداز کرنا پارٹی کے لیے خوفناک ہوگا۔ ان کی نامزدگی کے ساتھ ہی انھیں فوری طور پر تقریباً 100 ملین ڈالر کے فنڈز تک رسائی حاصل ہو جائے گی جو صدارتی مہم کے لیے اب تک جمع کیے گئے ہیںلیکن خطرات بھی ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہیرس کو منظور کیے جانے کی ریٹنگ بائیڈن کی طرح کم ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقابلے میں وہ تقریباً بائیڈن کی ہی پوزیشن پر ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ نائب صدر کی حیثیت سے بعض مواقع پر انھیں مشکلات کا بھی سامنا رہا ہے۔ انتظامیہ کے ابتدائی دور میں انھیں امریکہ،میکسیکو سرحد پر ہجرت اور نقل مکانی کے بحران کی بنیادی وجوہات حل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔یہ ایک مشکل چیلنج تھا اور متعدد غلطیوں اور غلط بیانیوں کی وجہ سے انھیں تنقید کا سامنا رہا اگرچہ بعد میں وہ اسقاط حمل کے حقوق پر بھی انتظامیہ کی نمائندگی کر رہی تھیں اور اسے انھوں نے زیادہ مؤثر طریقے سے سنبھالا ہے لیکن ان کا ابتدائی دنوں کا تاثر امریکی عوام کے ذہنوں میں اب بھی قائم ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here