لندن:
برطانوی تاریخ میں پانچ سال کے دوران تیسری مرتبہ عام انتخابات کے لیے ووٹنگ جاری ہے جس میں انگلینڈ، ویلز، اسکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ کے لیے 650 حلقوں پر موزوں امیدوار منتخب کرنے کے لیے عوام اپنا حقِ رائے دہی استعمال کررہے ہیں۔
صبح سات بجے سے شروع ہونے والی پولنگ کے بعد بعض پولنگ اسٹیشن پر لوگوں کی طویل قطاریں بھی دیکھی گئیں، لوگوں نے شدید سردی، بارش اور برفباری کے باوجود پولنگ کے عمل میں حصہ لیا۔ برطانوی وقت کے مطابق رات 10 بجے تک پولنگ جاری رہے گی جبکہ جمعہ کی صبح سے ہی نتائج کے اعلانات شروع ہوجائیں گے، رجسٹر ووٹر کی تعداد ساڑھےچار کروڑ سے زائد ہے۔
عوامی آرا پر مبنی سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بورس جانسن کی کنزوریٹوو پارٹی اکثریت حاصل کرسکتی ہے جبکہ لیبر اور کنزرویٹو پارٹی اگر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو اس کےبعد دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کو اہمیت حاصل ہوجائے گی جن کی اضافی حمایت ان دونوں میں سے کسی جماعت کو اقتدار تک پہنچاسکے گی۔
وزیرِ اعظم بورس جانسن نے سینٹرل لندن میں اپنا ووٹ ڈالا جبکہ لیبرپارٹی کے رہنما جیرمی کوربِن نے شمالی لندن میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
بریگزٹ اور انتخابات
یورپی یونین سے الگ ہونے کا معاملہ یعنی بریگزٹ ہی اس عام انتخابات کا سب سے اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے دوبارہ الیکشن کا انعقاد کرنا پڑا ہے۔ 2016 کے بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس پر عملدرآمد ڈیڈلاک کا شکار رہا ہے اور یوں حالیہ عام انتخابات کے بعد صورتحال واضح ہونے کے امکانات ہیں۔
اس مسئلے پر برطانیہ کی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اختلافات شامل تھے۔ موجودہ وزیرِ اعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی برطانیہ کا یورپی یونین سے فوری انخلا چاہتی ہے جبکہ لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن اس معاملے پر ایک اور ریفرنڈم کے خواہاں ہیں۔
اس کے علاوہ صحت کی سہولیات، امن و امان، معیشت اور کلائمٹ چینج جیسے موضوعات بھی انتخابی ایجنڈے میں سرِ فہرست رہے ہیں۔