کامل احمر
صدر ٹرمپ پاکستان کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو زمین برد کرنے کے بعد وزیر خارجہ پومپیو نے پاکستان کے جنرل باجوہ کو یہ خبر دی کہ کام تمام ہو گیا، یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ یہ خوشخبری تھی یا دھمکی یا یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ دیکھو سائنس نے کتنی ترقی کر لی ہے کہ ہم جیسے جب اور جہاں چاہیں برد کر سکتے ہیں، بہت پہلے آمر ضیاءالحق کو فضاءبرد کر دیا تھا اور بن لادن کو سمندر برد،ا یسا نہ کرتے تو دونوں کے مزار پاکستان میں ہوتے اور صبح و شام مزاروں پر چادریں چڑھتی رہتیں ، داتا دربار اور پاک پتن شریف میں لوگوں کی حاضری کم ہو جاتی، امریکہ نے فضول خرچی سے بچا لیا، یہ صاف اشارہ ہے اپنا مال غریبوں پر خرچ کرو۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں ہم یہ بتاتے چلیں کہ پاکستان آبادی کے تناسب سے دنیا میں دوسرے نمبر پر رہا سب سے زیادہ بچہ پیدا کرنے میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی شمار کے نتیجے میں یعنی پہلی جنوری ہی سولہ ہزار سات سو ستاسی بچے پیدا ہوئے جبکہ پاکستان کی مجموعی آبادی ساڑھے اکیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے، آبادی کے لحاظ سے نائیجیریا پہلے نمبر پر تھا بچہ پیدا کرنے میں یعنی 26 ہزار 39 بچے پیدا ہوئے۔ انڈیا نے 67385 بچے پیدا کر کے چین کو پیچھے چھوڑ دیا جہاں 64299 بچے پیدا ہوئے امریکہ میں سب سے کم بچے پیدا ہوئے آبادی کے لحاظ سے صرف 10452 جبکہ آبادی 33 کروڑ ہے۔ شاید صدر ٹرمپ کی دھمکی نے کام کیا ہو کہ لاطینی لوگوں نے آنا بند کر دیا ہو پھر بھی شکاگو میں لاطینی جوڑے نے پہلی جنوری کو سب سے پہلے بچے کی ولادت کا تمغہ لے لیا جبکہ شکاگو میں ہی دوسرے نمبر پر آنے والے ثناءاور عمران اختر تھے جن کے یہاں سال کے دوسرے بچے کی ولادت ہوئی نیویارک میں یہ اعزاز بالترتیب اطالوی اور یہودی جوڑے کے حصہ میں آیا پہلے اور دوسرے نمبر پر۔
اب اگر ہمارے اوپر دیئے گئے اعداد و شمار کو 365 دنوں پر ضرب کر دیں تو آپ کو اندازہ ہو جائےگا کہ آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس تیزی سے مواقع کم ہو رہے ہیں کہ لوگ اپنی زندگی کو خوشحال طریقہ سے گزار سکیں، ایک طرف دنیا کے 20 امیر ترین لوگوں میں سے 14 امریکی کارپوریشنز کے مالکان جن میں امیزان Amazon ٹاپ پر ہے۔ روزگار کے مواقع ختم کرتا جا رہا ہے زیادہ سے زیادہ کام انسانوں کی بجائے روبوٹ، مشینوں اور مصنوعی دماغ سے لیا جا رہا ہے دوسری جانب خود کار کاریں، گھر کی صفائی کیلئے روبوٹ جھاڑو بنا کر لوگوں کو سست، کاہل اور بیمار بھی بنا رہا ہے کہ امریکہ میں اوسطاً 40 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچے انسان کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہو رہا ہے ، ذیابیطس، بلڈپریشر، بینائی، دندنان کی بیماریاں عام ہیں اس کی وجہ غذائیں ہیں۔ آپ کسی مال یا کسی رونق والی جگہ چلے جائیں وہاں کافی اور میٹھی اشیاءکی بھرمار ہوگی اور حکومت کی طرف سے کوئی روک تھام نہیں ہے۔
تو بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ کیسے حل ہو وہ ملک بھی جو ترقی کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں جن میں جاپان اور امریکہ شامل ہیں بے گھر افراد کی تعداد میں اوپر ہیں، رہا سوال افریقہ کا تو وہاں قدرتی وسائل کی کمی ہے لیکن تیل درآمد کرنے والے ممالک میں نائیجیریا، میکسیکو اور وینزویلا غربت کو ختم کرنے میں ناکام ہیں، انڈیابھی شامل ہے وہ بھی کارپوریشنز کی گرفت میں ہے اور امریکہ کے نقش قدم پر جہاں دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں سمٹ رہی ہے انڈیا ایشیاءمیں اپنا تسلط چاہتا ہے جبکہ امریکہ پوری دنیا کی پولیس بن چکا ہے۔
صدر ٹرمپ نے آتے ہی کہا تھا کہ ہم افغانستان سے فوجیں واپس بلائیں گے اور دنیا کی پولیس نہیں بننا چاہتے لیکن حالیہ ایران سے چھیڑ چھاڑ کا ایک ہی مطلب ہے ہماری کسی بات پر یقین نہ کرنا اور جنگ کرنا ہمارا شغل ہے، پہلے جنگیں ضرورت کے تحت لڑی جاتی تھیں، جیسے افغانستان اور اس سے اوپر سرد علاقوں سے طاقتور لوگ ہندوستان میں مال و زر اور زن کی تلاش میں حملہ آور ہوتے تھے، جاپان، چین پر زمین کیلئے اور روس گرم بندرگاہ کی تلاش میں، لیکن امریکہ پہلے تو سرخ اور سفید کے چکر میں، کوریا، ویت نام، اور افغانستان میں گُھسا اور بعد میں تیل پر قبضے کیلئے عراق، لیبیا اور مشرق وسطیٰ میں جم چکا ہے اور حالیہ قاسم سلیمانی کےساتھ کئی دوسرے اہم لوگوں پر ڈرون حملہ کر کے بھونچال مچانے جا رہا ہے۔ ایران کہتا ہے ہم بدلہ لینگے کب اور کہاں ہم نہیں بتاتے اور جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ہم نے ایران میں 55 جگہوں کا چناﺅ کیا ہے،ان سب باتوں کے پیچھے کون ہے جو امریکہ کو جنگ میں دھکیل رہا ہے پچھلے ہی ہفتہ امریکہ کے ہر بڑے شہر میں احتجاجی مظاہرے اور جلوس نکلے ہیں، جنگ کےخلاف۔
ایران امریکہ کے مقابلے میں چھوٹا ملک ہے ہر لحاظ سے تو پھر عراق کے عبد ایران پر وہ بھی تاریخ دہرائی جا رہی ہے انتظار کریں، کہ عراق کی طرح تباہ کرنے کے بعد یہ کہنا پڑے کہ ہمیں غلط اطلاع دی گئی تھی اور جب تک ہزاروں جانوں کا ضیاءہو چکا ہوگا صدر ٹرمپ جارج ڈبلیو بش کی پالیسی پر عمل کرنے جا رہے ہیں، ہو سکتا ہے نئے ہتھیار آزما رہے ہوں، جو ممکن ہے اندر کوئی اسرائیلی ایجنڈے پر کام کر رہا ہو، اسرائیل کو اپنی توسیع کیلئے جگہ درکار ہو، شام کو لولا لنگڑا کرنے کے بعد اب ایران ہی رہ گیا ہے جو آنکھوں میں ریت کی مانند کھٹک رہا ہے یاد رہے کہ جب جنگ ہوتی ہے تو بہت سے تجارتی افراد کا بھلا ہوتا ہے۔ پچھلی جنگ میں جسے ہم قبضہ کہیں گے ڈک چینی، جولیانی، کونڈو لیزا رائس اور دوسرے مالدار بنے تھے اوراب کون بنے گا کروڑ پتی دیکھتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کیلئے ایسا ہونے جا رہا ہے، جس کیلئے خود امریکی عوام تیار نہیں، کہتے ہیں ایران کے بعد پاکستان ہوگا، ہمارا کہنا ہے نہیں، پومپیو نے باجوہ کو اعتماد میں لے لیا ہے، ویسے بھی ہماری قوم تم میرے پاس ہو، کلچر ڈرامے میں شرابور ہے ،بے شعور ہو چکی ہے۔
٭٭٭