مجیب ایس لودھی، نیویارک
امریکہ میں مسلم کمیونٹی کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کی امریکی سیاست میں نمایاں کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ سیاست میں بڑا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ،نئی تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ کی مجموعی طور پر 32.2کروڑ کی آبادی میں مسلم کمیونٹی کی تعداد ایک فیصد یعنی 33لاکھ کے قریب بنتی ہے اگر امریکہ میں مقیم دیگر کمیونٹیز کے اعداد وشمار پر نظر ڈالی جائے تو یہودی کمیونٹی کی تعداد سب سے زیادہ 57لاکھ کے قریب ہے جبکہ ہندوﺅں کی تعداد 23 لاکھ ہے ، مسلمانوں کی تعداد دوسرے نمبر پر ہے ، 2050ءمیں مسلمانوں کی تعداد موجودہ تعداد سے دو گنا ہو جائے گی ۔پیو ریسرچ کے مطابق 2040میں مسلمان امریکہ میں عسائیت کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروپ ہوں گے یعنی امریکہ میں آباد مسلم کمیونٹی آبادی کے لحاظ سے 25سال میں یہودیوں کو پیچھے چھوڑ دے گی،صرف نیویارک سٹی میں 8سے 10لاکھ مسلمان آباد ہیں اور اس شہر میں کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 8لاکھ 24ہزار کے قریب ہے۔ فروری 2016میں کیے گئے سروے کے مطابق پانچ لاکھ ووٹرز ڈیموکریٹ پارٹی کے حامی تھے جبکہ ڈیڑھ لاکھ ووٹر ز ری پبلیکن کی حمایت کر رہے تھے جس میں اب مزید کمی واقع ہو گی ۔
نیو جرسی کی طرح کچھ ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ، مسلمان رہنماسیاسی منظر نامے پر بھی اپنے آپ کو نمایاں کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں ، 2019کے انتخابات کی بات کی جائے تو مجموعی طور پر 94 مسلم امیدواروں نے حصہ لیا جس میں 46نے کامیابی حاصل کی ، مسلم رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ وہ نومبر 2020میں ہونے والے انتخابات کے دوران ٹرمپ کی فتح اور شکست میں بنیادی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں ،کانگریس وومن الہن عمر ، راشدہ طالب اور محمد گلا کی انتخابات میں بڑے مارجن سے فتح نے سیاسی منظر نامے پرمسلم کمیونٹی کی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے ، انتخابات کے دوران وسکانسن ، مشی گن اور پنسلووینیا کی ریاستیں مسلمان کمیونٹی کے لیے بڑی سوئنگ ثابت ہوں گی ،ان ریاستوں کے انتخابی نتائج اہم تصور کیے جائیں گے ۔
مسلم تنظیموں کیئر اور جیٹ پیک کے مطابق مسلم خواتین رہنما امریکہ میں کمیونٹی کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں ، گزشتہ برس کے اوائل میں جب راشدہ طالب نے کانگریس وومن منتخب ہونے کے بعد حلف برداری کی تقریب میں حجاب کے ساتھ روایتی فلسطینی لباس پہنا تو حکام حجاب پر عائد پابندی کو ختم کرنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ کانگریس وومن کی جانب سے حجاب کے ساتھ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کو کافی سراہا گیا تھا ، اسی طرح سیاسی میدان میں مسلم رہنماﺅں کی اکثریت اپنے زور بازو سے امریکہ میں من چاہے حقوق حاصل کر سکتی ہے جس کے لیے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔ورجینیا ہاﺅس آف ڈیلی گیٹس میں منتخب ہونے والے مسلم رہنما ابراہیم نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ مسلم کمیونٹی زیادہ سے زیادہ اپنے رہنماﺅں کو سپورٹ کر کے سیاسی میدان میں خود کو مضبوط کر سکتی ہے جس سے نہ صرف مسلم کمیونٹی کے مسائل کم ہوں گے بلکہ ان کے حقوق کے لیے قانون سازی میں بھی آسانی ہوگی ، امریکہ میں مقیم مسلم کمیونٹی نے بتدریج ایک منظم مقام بنا لیا ہے تاہم برطانیہ کی طرح ابھی امریکہ کی مسلم آبادی کووہاں کی پارلیمنٹ اور حکومت میں نمایاں مقام حاصل نہیں ہو سکا ہے ،موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ مسلم کمیونٹی اور رہنما حکمت عملی ترتیب دے کر ٹرمپ کے جال سے نکلیں۔
٭٭٭