جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
پاکستان کا منظر نامہ جس صورتحال سے اس وقت دوچار ہے وہ کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں قرار دیا جا سکتا ہے، داخلی و خارجی محاذوں پر خصوصاً مشرقی سرحد پر بھارت کی مکروہانہ پالیسیوں کے باعث جہاں پاکستان کو بہت سی دُشواریوں اور ان دُشواریوں کے سدّ باب کیلئے مشکلات کا سامنا ہے وہیں ملک کے اندر سیاسی منافقت اور چشمک کے باعث وزیراعظم عمران خان کو بحران در بحران کا سامناہے، اس حقیقت کے باوجود کہ عمران خان اس وقت مقتدرین کی نظروں میں واحد چوائس ہیں، مخالف رہنماﺅں کے تمام تر دعوﺅں کے باوجود اس وقت کسی بھی تبدیلی یا ایڈونچر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے، اس سچائی کے باوجود وطن عزیز میں جو ہاہا کار ہو رہی ہے وہ نہ صرف موجودہ نظام کو کامیاب نہیں ہونے دے رہا ہے بلکہ عوام کی زندگی کو بھی اجیرن بنا رہا ہے۔ ٹماٹر میں مہنگائی سے لے کر آٹے کی عدم دستیابی تک، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے اور شارٹیج کے شور شرابے سے لے کر روپے کی قدر میں کمی، اسٹاک ایکسچینج کے اُتار چڑھاﺅ کے سلسلے، اپوزیشن کے روز اول سے روئیے اور خود کپتان کے حزب اختلاف سے معاندانہ رویوں نے تو حالات کو مشکل بنا کر رکھا ہی ہے اب گھر کے چراغوں نے بھی آگ لگانے میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔
ہم نے اپنے پچھلے کالم کا اختتام جس شعر پر کیا تھا وہ اس جانب ہی اشارہ تھا کہ کپتان کو مخالفین سے زیادہ خود اپنے حلیفوں اور اندر کے لوگوں پر نظر رکھنی ہوگی بلکہ ان کی تخصیص و پہچان کرنی ہوگی۔ دوستوں کے وار دشمنوں سے زیادہ خطرناک اور اندھیرے کے تیر ہوتے ہیں اور سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیتے۔ سیاست میں اس طرح کے سلسلے ذات، مفادات اور مواقع سے منسلک ہوتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور میں انہی لوگوں نے اپنے مربیوں کو نقصان پہنچایا ہے جو انتہائی قریب ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست تو اس طرح کے حقائق سے بھری پڑی ہے۔ پی ٹی آئی کو اقتدار میں آئے ہوئے ابھی ڈیڑھ سال بھی نہیں ہوا ہے لیکن اس دوران جہاں ایک جانب مخالفین اور ان کے پروردہ افراد و شعبوں نے جس طرح رکاوٹیں و دُشواریاں پیدا کی ہیں وہ اپنی جگہ لیکن اندر کے لوگ بھی ابتداءسے ہی اپنی موشگافیوں میں سرگرم عمل ہیں اور ان کی حرکتیں وزیراعظم کیلئے مشکلات کا باعث بن رہی ہیں۔
ہم پہلے بھی متعدد بار عرض کر چکے ہیں کہ PTI کی حکومت واضح اکثریت نہ ہونے کے باعث وفاق اور پنجاب میں کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے اور حلیفوں کے تعاون کی دست نگر ہے جبکہ شکست خوردہ سیاسی اشرافیہ اپنے منطقی انجام کے پیش نظر وہ تمام اطوار اپنا رہی ہے جو اس کے Survival کیلئے کارگر ہو سکیں۔ سروسز ایکٹ میں قانون سازی کے مرحلہ پر مخالف سیاسی جماعتوں نے بوجوہ حکومت کا ساتھ تو دیدیا لیکن اس کےساتھ ایک متعینہ ایجنڈے کے تحت تبدیلیوں کی افواہوں کا بازار بھی گرم ہو گیا ہے۔ کچھ عناصر اسے مولانا ڈیزل کے مارچ اور دھرنے کے حوالے سے بعض یقین دہانیوں کا مابعد تاثر قرار دے رہے ہیں۔ حلیفوں کے حکومت سے تحفظات اور شکایتوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا نے بھی طوفان برپا کیا ہوا ہے، پنجاب جو ملک کی دو تہائی آبادی کا صوبہ ہے اور وفاق میں اقتدار کا موجب گردانہ جاتا ہے، اس کی گورننس اور نا اہلی کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ہنگامے میں مخالفین اور میڈیا کے بعض مخالف اینکرز اور تجزیہ کاروں کی ہرزہ سرائی تو اپنی جگہ خود حکومتی حلقوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، وفاقی وزیر اور مختلف جماعتوں و ادوار سے اقتدار کا مزہ لوٹنے والے فواد چودھری کا پنجاب حکومت کی کارکردگی پر تنقید کا خط اور پے درپے عثمان بزدار کےخلاف تنقید ہر گز عمران خان کے حق میں نہیں جاتی ہے۔ آخر وہ کیا عوامل ہیں جن کی بنیاد پر فواد چودھری یہ سب کر رہے ہیں اور حیرت یہ ہے کہ وفاق اور صوبہ پنجاب کے ترجمان فردوس عاشق اعوان اور فیاض الحسن چوہان بودی تاویلوں سے فواد چودھری کے بیانیہ کی لیپا پوتی کر رہے ہیں۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت سازی کا مرحلہ شروع سے ہی گروپس کے درمیان حلق کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ علیم خان، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین وغیرہ کے گروپس کی کوشش تھی کہ وزیراعلیٰ کا سنگھاسن ان کے پاس ہو۔ شاہ محمود صوبائی انتخاب نہ جیت سکے اور انہیں وفاقی وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔ جہانگیر ترین نا اہل ہو چکے تھے جبکہ علیم خان کو مقدمات اور حراست میں پھنسا دیا گیا، عمران خان نے ڈیرہ غازی کے نواحی حلقہ سے کامیاب ہونےوالے اور الیکشن سے دو ماہ قبل ہی پی ٹی آئی جوائن کرنے والے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ نامزدکیا اور انہیں وسیم اکرم پلس قرار دیتے ہوئے اس صوبے کی ترقی و خوشحالی کی امید کی نوید سنائی۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ق لیگ اور آزاد امیدواروں کی مدد سے ظہور میں آئی، چودھری پرویز الٰہی اسپیکر منتخب ہوئے اور کار حکومت کا آغاز ہوا۔ واضح رہے چودھری پرویز کا دور وزارت اعلیٰ پنجاب کا کامیاب ترین دور شمار کیا جاتا ہے۔ قصہ¿ مختصر پنجاب میں وزیراعلیٰ تو بزدار ضرور ہیں لیکن شروع سے ہی وزیراعظم خود پنجاب کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں، کابینہ اور دیگر اہم اجلاس کی قیادت اور معاملات کے فیصلے کرتے رہے اس دوران پنجاب میں انتظامی اور سیاسی و معاشرتی حالات جو رہے قارئین اس سے بخوبی واقف ہیں خصوصاً گورننس پر آج بھی متعدد سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حلیفوں کے حالیہ روئیے خصوصاً ق لیگ کے حکومت سے تحفظات پر عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ پر چہ میگوئیاں اور پنجاب حکومت کے حوالے سے تبدیلیوں کو موضوع بناتے ہوئے چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھائے گئے اس معاملے میں جہاں مخالفین اور میڈیا نے پروپیگنڈہ کیا، وہیں فواد چودھری اور شیخ رشید بھی پیچھے نہیں رہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ پنجاب میں بیک ڈور چینلز کے توسط سے عمران خان سے بزدار کو تبدیل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ فواد چودھری کے خط کو بنیاد بناتے ہوئے یہ مو¿قف بھی سامنے آیا کہ جہانگیر ترین کے پیرو کار ہوتے ہوئے فواد چودھری وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ دوسری جانب یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک گروپ بن گیا ہے اور اس گروپ نیز ن لیگ کے ارکان کی حمایت سے چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب ہونگے۔ چودھری پرویز الٰہی نے نہ صرف خود اس بات کی تردید کی بلکہ مونس الٰہی اور چودھری سالک نے یہ کہہ کر کہ ہم آخر وقت تک عمران خان کےساتھ کھڑے ہیں غبارے سے ہوا نکال دی۔
قطع نظر اس بات کے کہ وزیراعظم عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب رکھنے پراپنے مو¿قف پر ڈٹے ہوئے ہیں انہیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے عوام اور گورننس و لاءاینڈ آرڈر کی بہتری کیلئے ان کے پاس کیا آپشنز ہیں، خصوصاً ایسی صورت میں کہ جب عثمان بزدار کی کپتان کے منتخب کردہ چیف سیکرٹری سے بھی ان کی کیمسٹری نہیں بن رہی ہے اور خود ان کی اپنی کابینہ سے بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ فواد چودھری اور شیخ رشید کی عثمان بزدار پر مسلسل تنقید اور اعتراض خالی ازعلت نہیں ہے۔ کابینہ کے ان دو اراکین کا یہ انداز محض بیان بازی ہے یا اس کے پیچھے کوئی مقصد پنہاں ہے؟ ویسے بھی پی ٹی آئی کے بیشتر ارکان کابینہ بعض اوقات ایسے روئیے اور اقدامات اپناتے ہیں جو کسی طور بھی نہ حکومت کے حق میں ہوتے ہیں اور نہ وزیراعظم کے مفاد میں۔ فیصل واوڈا کی شروع سے اب تک کی حرکتیں خصوصاً بُوٹ کی حرکت، شیخ رشید کا آٹے کے بحران پر ایک روٹی کم کھانے کا مشورہ، شہریار آفریدی کی رانا ثناءکے کیس میں اللہ کو منہ دکھانا ہے کی تکرار اور مراد سعید کے حوالے سے چین کا اعتراض چند مثالیں ہیں جو نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے ناسازگار ہیں بلکہ حکومت کیلئے عوام میں عدم مقبولیت کا بھی سبب بن رہی ہیں۔ کپتان کو ایسے لوگوں پر نہ صرف نظر رکھنی چاہیے بلکہ ایسے نا اہل اور آستین کے سانپوں سے خلاصی بھی کرنی ہوگی۔ کپتان کا عزم، ملک و عوام کیلئے کچھ کرنے کی سوچ اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا بتہر امیج بنانے کی جدوجہد پر کسی کو شُبہ نہیں۔ ملک میں بہتری کیلئے ریاستی اداروں کا ایک ہونا اور اسٹیٹس کو توڑنے کیلئے مافیا کی سرکوبی کرنا یقینی خوش آئند ہے لیکن اس کےساتھ اندر کی کالی بھیڑوں کو بھی نکیل ڈالنا ضروری ہے انہی کیلئے شاعر نے کہا ہے!
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر پائیں
ان برادران یوسف سے چھٹکارا پا کر ہی وزیراعظم عوام کی اُمیدوں اور اپنے عزائم کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ بھٹو شہید کا زوال بھی ان کے قریبی ساتھیوں کے باعث ہوا۔