جاوید رانا
جس وقت یہ کالم لکھا جا رہا ہے، وزیراعظم عمران خان دو روزہ دورے پر ملائیشیا کے دورے پر ہیں، اگرچہ وزیراعظم کے اس دورے کے حوالے سے کوئی واضح ایجنڈا سامنے نہیں آیا تھا اور ایک گُومگو کی کیفیت تھی تاہم وزیراعظم کے ملائیشیا کے وزیراعظم، وزیر دفاع اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتوں ، کپتان کے ہمراہ جانےوالے وفد کے اراکین کے ملائیشین ہم منصبوں سے ملاقاتوں ، مختلف منصوبوں اور بین الحمملکتی معاہدوں کی خبریں موصول ہوئی ہیں جو حوصلہ افزاءبھی ہیں اور پاکستان و ملائیشیا کے درمیان بڑھتے روابط کے مثبت نتائج کی نوید بھی ہیں، خصوصاً پاکستان کی افرادی قوت کے ملائیشیا میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے کے حوالے سے ایک اہم اقدام ہوگا جو کہ نہ صرف پاکستان کی معیشت کی بہتری کیلئے سازگار ہوگا بلکہ عوام کے بہتر معیار زندگی میں بھی اہم پیش رفت ہوگا۔ شنید یہ ہے کہ ترکی کے صدر اردوان کے دورہ¿ پاکستان کے موقع پر دیگر ایشوز کےساتھ پاکستان کی افرادی قوت کی ترکی میں ملازمت کار کے حوالے سے بھی اہم فیصلے متوقع ہیں۔ حکومت کا یہ اقدام اس حوالے سے اور بھی مفید ہے کہ اس وقت جو پاکستانی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں برسوں سے خدمات انجام دے رہے ہیں انہیں نہ شہریت کے حقوق ملتے ہیں اور نہ ہی ان کی ملازمتوں کو تحفظ میسر ہوتا ہے ۔دوسری جانب ان ممالک کی اپنے مفادات کیلئے پاکستان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اپنی بات منوانے کیلئے پاکستانی افرادی قوت کو واپس بھیجنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، سعودی عرب کی پاکستان کے ملائیشیا سمٹ میں شرکت کے معاملے پر دھمکی اور عمران خان کی سمٹ میں عدم شرکت اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اسی طرح یو اے ای اور دیگر خلیجی ریاستوں کا معاملہ ہے کہ اپنے کاروباری مفادات کے تحت وہ بھارتی افرادی قوت کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ بہرحال پاکستانی وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے یہ اقدامات بہتر خارجہ پالیسی کےساتھ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے انتہائی مو¿ثر ہیں۔ معیشت کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف میں بھارت کی مخالفت اور سازش کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات بہت روشن نظر آتے ہیں جن میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس پاکستان کے وزیر حماد اظہر اور اراکین وفد سے نہ صرف ایف اے ٹی ایف کے ذمہ داران مطمئن ہوئے بلکہ پاکستان کی بہتر خارجہ اسٹریٹجی کے باعث چین، فرانس اور امریکہ بھی پاکستان کے حق میں ہو گئے ہیں اور آئندہ اجلاس میں پاکستان کی حمایت پر آمادہ ہیں۔ یہ ڈویلپمنٹ مودی اور بھارتی حکومت کی پاکستان دشمن سازش کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ماضی کی حکومتوں کی مفاداتی پالیسیوں اور کرپشن کے باعث پاکستانی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی تھی پاکستان پر قرضوں کے بوجھ، کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثرات اور اسٹاک مارکیٹ کے منفی اشارئیے اس کی گواہی تھے۔ عمران خان کی حکومت نے معیشت کی بہتری کیلئے بہت سے اقدامات کئے، دوست ممالک سے امداد اور قرضے بھی حاصل کئے، مالیاتی اداروں کو درست ٹریک پر لانے کیلئے ماہرین کو مالیاتی ذمہ داریاں دیں اور ہر وہ کوشش کی جس سے معیشت میں بہتری آئے۔ اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی، جاری اخراجات کے خسارہ میں بھی کمی آئی۔ سیاحت کو فروغ کے عوامل بھی نظر آئے لیکن دوسری جانب عوام کی زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ اشیائے ضرورت کی اشیاءمیں مہنگائی کی انتہائ، حصول روزگار میں دشواریاں، 12 لاکھ سے زائدا فراد کی بیروزگاری حتیٰ کہ گندم و شکر کے بحران نے عوام کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کر دیا ہے۔ عوام کی بدحالی تو اپنی جگہ، اس وقت حالت یہ ہے کہ لاکھوں روپے ماہانہ کی آمدنی والا فرد بھی اپنے خاندان کے اخراجات بھی پورے نہیں کر سکتا، خود کپتان یہ کہہ چکے ہیں کہ موجودہ تنخواہ میں گھر نہیں چلایا جا سکتا۔ جب وزیراعظم کی یہ کیفیت ہو تو اوسط 25 ہزار کمانے والا اپنا گھر کیسے چلا سکتا ہے۔ ضرورت کی اشیائ، بجلی، گیس، پیٹرول غرض ہر چیز کی مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جس وقت ہم یہ ستور لکھ رہے ہیں آئی ایم ایف کی ٹیم 45 کروڑ ڈالر کی قسط کے حوالے سے پاکستان آئی ہوئی ہے اور خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کی مزید شرائط سے مہنگائی میں مزید اضافہ نہ ہو جائے۔ پاکستان کے معروضی حالات میں مہنگائی اور روپے کی قدر میں اضافہ کسی حد تک ناگزیر تو تھا لیکن اس سارے کھیل میں عوام کی تباہی کے اور بہت سے عناصر بھی سامنے آئے ہیں۔ بیڈ گورننس، کاروباری طبقات کا عدم تعاون، تجربہ کار و مفاداتی مخالف سیاسی اشرافیہ کی اندر خانہ سرگرمیوں کےساتھ خود گھر کے اندر کپتان کی کالی بھیڑوں کے کرتوتوں نے اس صورتحال کو قابو سے باہر کر دیا ہے، اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر شعبہ میں اپنے مفادات کیلئے مافیاز موجود ہیں اوران کے نہ صرف حکومت میں بلکہ شکست خوردہ سیاسی اشرافیہ سے بھی رابطے ہیں جو کپتان کی حکومت کے عدم تسلسل کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ گندم اور شوگر بحران کی تحقیقات کرنے والے ادارے بھی اپنی رپورٹس میں ان حقائق کی نشاندہی کر چکے ہیں، خود عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ میں ان مافیاز سے واقف ہوں جو میرے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، ایسے میں کپتان کیوں نہیں ان مافیاز کےخلاف کارروائی کرتے۔ وہ کون سی سیاسی یا ذاتی وجوہات ہیں جو انہیں کوئی بڑا قدم اٹھانے سے روک رہی ہیں۔ ہم تو اپنے پچھلے کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ کپتان اپنے اطراف میں موجود کالی بھیڑوں اور مہنگائی کے طوفان پر قابو پانے کے اقدامات کریں کہ یہ عوامل ان کی حکومت اور اقتدار میںعدم تسلسل لا سکتے ہیں۔ 17 ماہ کی مدت میں جہاں سیاسی مخالفین کی محاذ آرائی نے کپتان کے عزم کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں وہیں ملک کے اندر معاشی ابتری نے عوام میں ان کی مقبولیت کے گراف کو بہت نیچے کر دیا ہے، سونے پہ سہاگہ گورننس کی خرابی نے منصوبہ سازوں اور مقتدروں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ متذکرہ بالا حالات کے تناظر میں موجودہ سیاسی منظر نامہ جو رُخ اختیار کر گیا ہے، وہ کسی بھی طور پر پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان کے حق میں نظر نہیں آتا۔ اپنی بھرپور کامیابی کے باوجود پی ٹی آئی حکومت اتحادیوں کے بل پر وفاق اور پنجاب میں بنی تھی۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پہلے دن سے ہی کپتان کی حکومت کیخلاف سرگرم تھیں اور مواقع کی تلاش میں تھیں کہ کس طرح منصوبہ سازوں اور اقتدار کے اصل حلقوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔پاکستانی سیاست کے نرالے کھیل کی بساط پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے مرحلے کے بے ڈھنگے پن کی وجہ سے دونوں مخالف سیاسی جماعتوں کو یہ موقعہ ملا اور ہوا کے رُخ میں تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے۔ کپتان کی حکومت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر اقتدار کے شریک ہوتے ہیں ان کے اطوار بھی بدلے بدلے نظر آئے اور اسی وقت اتحادیوں کے تحفظات بھی سامنے آئے یہ صورتحال غیر متوقع نہیں ہو سکتی تھی بلکہ اس امر کا اظہار لگتی تھی کہ کچھ تو ہے۔ اس تمام سچوئیشن میں کپتان کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کیلئے دانشمندانہ اقدامات خصوصاً اتحادیوں سے مثبت طرز عمل و روابطہ کی ضرورت تھی اور ہے۔ کپتان کی فطرت میں جہاں راست گوئی، اپنے مو¿قف پر ڈٹے رہنا اور اس پر عمل کرنا ایک مثبت اور روشن پہلو ہے وہیں دوسروں سے ضد پر جمے رہنا، پرانی چپقلشوں کو نہ بھولنا اور مفاہمت کی راہ سے احتراز کرنا ان کی صلاحیتوں اور عزم کیلئے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ انہیں وجوہات کی بناءپر ان کے بڑے اتحادی چودھری برادران ان سے شاکی ہیں۔ چوہدریوں کی سیاسی دانش اور طویل تجربے کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کپتان آگے بڑھ کر تعاون، اشتراک کا مظاہرہ کرتے لیکن اس کے برعکس انہوں نے معاملہ کو کمیٹیوں کے حوالے کر دیا۔ دوسری کمیٹی بننے پر چودہری پرویز الٰہی کے تحفظات کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کےساتھ رہنے کا مو¿قف ایک مثبت اشارہ ہے لیکن لگتا ہے کپتان اپنی طبیعت کے باعث اس پر توجہ نہیں دے رہے۔ دیگر اتحادیوں کے معاملات بھی کچھ مختلف نہیں۔ ادھر اپنی حکومت اور پارٹی کے اندر تطہیر کے معاملے پر بھی کپتان کی سوچ واضح نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب ان کے حمایتی مبصرین بھی منصوبہ سازوں کی سوچ اور اقتدار کی تبدیلی کی باتیں کر رہے ہیں اور اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ اندر خانہ بہت پیش رفت ہو رہی ہے۔ عمران خان سیاسی نظام میں آزمائے ہووﺅں کے مقابل اب بھی امید کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی ایماندارانہ، راست اور پُرعزم شخصیت عوام میں مقبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ بہتر راہ اپنانا ان کی حکومت اور سیاسی بقاءکیلئے ضروری ہے کہ وہ عوام کے جذبات کو سمجھیں اور ان کی بہتری کیلئے ترجیحی اقدامات کریں۔ عام آدمی کو معیشت، ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، اس کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اس کی زندگی بہتر گزرے، اسے دو وقت کی روٹی ملے، بچوں کو تعلیم دلوائی جائے، صحت کی سہولیات میسر ہوں اور امن و امان کے حالات قائم رہیں۔ کپتان کو اپنے اہداف اس حوالے سے منظم کرنے ہونگے اور اس کیلئے بہتر گورننس و نظام کے اقدامات کرنے ہونگے یہی ان کے اقتدار و مقبولیت کی ضمانت ہے ورنہ ملک میں سیاسی تماشوں اور تبدیلیوں کا سلسلہ تو ستر سال سے جاری ہے، حقیقت یہی ہے کہ ملک میں پارلیمانی جماعت و نظام کا صرف نام ہے ،اصل حکومت تو منصوبہ سازوں کی ہے۔