حیدر علی
ننھی منّی بچی تسمین کا یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ درمیانی شب میں اٹھ کر ہچکیاں لیتے ہوے اپنی امّی تسلیمہ بیگم کو ڈھونڈنا شروع کردیتی ہے، شومئی قسمت کہ تسمین کی ماں کو بنگلہ دیش میں ایک مشتعل ہجوم نے گذشتہ سال جولائی کے ماہ میں زد و کوب کرکے ہلاک کردیا تھا،اِسلئے اُس کی آہ و زاری ، اُسکی امّو امّو کہہ کر چیخنے کی صدا فضا میں تحلیل ہو کر رائیگاں چلی جاتی ہے۔ تسمین کی انٹی ننھی منّی تسمین کو تسلی دیتے ہوے صرف یہ کہہ دیتی ہے کہ تمہاری امّو امریکا گئی ہے ، اور وہ وہاں سے تمہارے لئے بہت سارے خوبصورت کپڑے اور کھلونے لائے گی، تسمین کو بہلانے کیلئے یہ ایک اچھا آزمودہ فارمولا ہے لیکن سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ سات ماہ کے عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی بنگلہ دیش کی پولیس تسلیمہ بیگم کے قاتلوں کے خلاف کوئی چارج شیٹ عدالت میں پیش نہ کر سکی، البتہ اِس ضمن میں گرفتار ہونے والوں کی تعداد 20 تک پہنچ چکی ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ وقت کی مسافت کے ساتھ ساتھ تمام ملزمان ایک یا دوسرا بہانہ کرکے رہا ہوجائینگے، معتبر ذرائع کے مطابق تسلیمہ بیگم کی ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ وہ 20 جولائی 2019 ءکے دِن ڈھاکا کے قریب موہا کھالی کے ایک پرائمری اسکول میں اپنی بیٹی تسمین کے داخلے کے سلسلے میں دریافت کرنے گئی تھی، وہاں اُسے کن حالات سے دوچار ہونا پڑگیا ، اِس کے اسرار و رموز کا پردہ چاک ہونا تا ہنوز باقی ہے، البتہ شر پسند عناصر تسلیمہ بیگم کو بچے اغوا کرنے والی عورت قرار دے کر زد و کوب کرنا شروع کردیا اور جس سے اُس کی موت واقع ہوگئی۔
جب سے بنگلہ دیش میں پدما ندی پر بِریج کی تعمیر کا کام شروع ہوا ہے ، اُس وقت سے وہاں روزانہ کی بنیاد پر افواہوں کا اُڑنا ایک معمول بن گیا ہے، تازہ ترین یہ افواہ وہاںگرم ہے کہ پدما بریج کو پایہ تکمیل تک پہچانے کیلئے انسانی جانوں کی قربانی کی ضرورت ہے، اِس ا فواہ کو سُن کر مائیں سہم کر رہ گئیں ہیںاور وہ اپنے بچوں کو خود سے جدا کرنے میں ہچکچاتی ہیں یا خوف و ہراس کی کیفیت اُن پر طاری ہوجاتی ہے۔ مزید برآں ہر بچے کے اغوا ہونے کی خبر اُنہیں شدید اضطرابی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے افواہیں فیس بُک پر بھی پوسٹ کی گئیں ہیں کہ پدما بریج کی تکمیلی کیلئے انسانی سروں کی ضرورت ہے۔ افواہیں سرگرم اُس وقت ہوئیں جب میڈیا کو یہ اطلاع فراہم کی گئی کہ بنگلہ دیش کے شمالی ڈسٹرکٹ نیٹروکونا میں ایک شخص کو ایک بچے کے سربُریدہ کو لے جاتے ہوے دیکھا گیا ہے حتی کہ ویب سائٹ کے ایک صفحہ پر یہ اطلاع دی گئی ہے کہ پدما بریج کی تعمیر مکمل کرنے کیلئے سروں کے چراغ کی ضرورت ہے۔
ضرورت اِس بات کی ہے کہ انسان کو بھیٹ چڑھایا جائے، اور اُن کے سروں کو چراغوں سے آرائش کئے ہوئے کشتی پر رکھ کر پدما ندی میں چھوڑ دیا جائے ، تاکہ اُس کی روح پُل کے نیچے سے گذر کر مافوق الفطرت کو تسکین پہنچا سکے۔ دراصل یہ رسم و رواج مذہبی عقائد کا ایک حصہ تھا جسے بعد ازاں ہندو¶ں نے بھی اپنایا تھا یہی وجہ ہے کہ ہندو¶ں کے مندروں میں آج بھی اُن کے دیوتا¶ں کی زبانوں اور جبڑوں پر خون کے نشانات پائے جاتے ہیں لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ اِس جرم کے ارتکاب میں ہندو¶ں کا عمل دخل کارفرما ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی توہم پرست مسلمان ماضی کی تاریخ کو دہرا کر اپنے علیل ذہن کو خوش کرنا چاہتا ہو تاہم انسانی جانوں کو دیوتا¶ں کو خوش کرنے کیلئے بھینٹ چڑھانا بنگلہ دیش یا بھارت میں کوئی یہ پہلا واقعہ نہیں،بنگلہ دیش کی حکومت نے اِن افواہوں کے خاتمہ کیلئے فوری اقدامات اٹھانا شروع کر دیئے ہیں۔ فیس بُک کے 60 ، یو ٹیوب کے 25 چینلز اور 10ویب سائٹس بند کر دئے گئے ہیں۔ بنگلہ دیشی مرد حضرات بھی ضرورت سے زیادہ چوکس ہو گئے ہیں، اپنے گھر کے پاس کسی بھی اجنبی شخص کو دیکھ کر شور مچانا شروع کردیتے ہیںکہ بچہ اغوا کرنے الا آگیا ہے، پولیس کی اطلاع کے مطابق 30 سے زائد افراد اِس الزام کے تحت بلا وجہ تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں۔بنگلہ دیش کے دارلخلافہ ڈھاکا میں ایک سماعت سے محروم شخص جو اپنی بیٹی سے ملاقات کی غرض سے اُسکے گھر جارہا تھا، مشتعل ہجوم نے اِسی شبہ میں مار کر ہلاک کردیا کہ وہ اُن کے بچے کو اغوا کرنے کی غرض سے آیا تھا۔ پولیس اِن حالات سے اتنی زیادہ پریشان ہوگئی ہے کہ دیہی علاقوں میں گشت کر کے لا¶ڈ سپیکر کے ذریعہ عوام کو اِن افواہوں پر کان نہ دھرنے کی اپیل کر رہی ہے۔
اِس تناظر میں پولیس کے حکام نے تسلیمہ بیگم کی ہلاکت کو پدما ندی کے سانحہ سے منسلک کردیا ہے لیکن مرحومہ کے لواحقین نے بنگلہ دیش کے ہائی کورٹ میں حکومت سے پانچ کروڑ ٹاکا کے ہر جانے کا دعوی دائر کیا ہے۔پدما بریج بنگلہ دیشیوں کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، دومنزلہ بریج جو 4 میل لانبا اور 60 فٹ چوڑا ہوگا، جس پر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ریلوے کی لائن بھی بچھی ہونگی۔ اِس بریج کی تعمیر کی کُل مالیت 4 بلین ڈالر آئیگی توقع کی جاتی ہے کہ اِس بریج کے تعمیر کے بعد بنگلہ دیش کے GDP میں 1.5 فیصد اضافہ ہو جائیگا۔ یہ اور بات ہے کہ ورلڈ بینک سمیت دوسری تمام بین الاقوامی تنظیموں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اِس بریج کی تعمیر میں زبردست خوردبرد، مالی بدعنوانیاں اور کرپشن کا خطرہ لاحق ہے یہی وجہ ہے کہ ورلڈ بینک نے 1.2 بلین ڈالر اِس مد میں بنگلہ دیش کو دینے والی رقم کو موخر کردیا ہے۔