شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
پاکستان دو لخت ہونے کی وجہ ہمارے سیاستدانوں کی وہ متعصبانہ ذہنیت کا نتیجہ تھی جس نے پاکستان دو ٹکڑے کر دیا اور بنگالیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا جبکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی پاکستان میں بنگالیوں کےساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا، ہماری قوم کو ہمیشہ ہماری متعصبانہ سوچ نے منتشر کئے رکھا اور ہم کبھی بھی ایک قوم کی حیثیت سے یکجا نہ ہو سکے ۔اس وقت جب قائداعظم کی قیادت میں پاکستان کی تحریک شروع ہوئی اس وقت ایک قوم کی حیثیت سے ہم لوگوں میں اتحاد تھا ،قائداعظمؒ کی وفات کے بعد سے ہی ہم لوگ مذہبی، علاقائی، زبانوں میں بٹ گئے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ صرف ہمارے سیاستدانوں کی حرص ہمیں لے ڈُوبی اور صرف اقتدار کیلئے ملک کو دو ٹکڑے کر دیا گیا۔ دشمنوں نے اس سے فائدہ اُٹھایا اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوا دیا، بنگلہ دیش میں جو پاکستانی پھنس گئے تھے وہ آج تک وہاں کے کیمپوں میں پاکستان کی حمایت میں بے سر و سامانی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کو بہاری کہہ کر چھوڑ دیا گیا نہ ہی ہماری حکومت نے ان کو وہاں سے لانے کا بندوبست کیا اور نہ ہی کوئی صوبہ ان کو لینے پر آمادہ ہوا حالانکہ اگر تمام صوبے چاہتے تو ان کو آباد کیا جا سکتا تھا مگر صرف اور صرف اس لئے ان کو بھی نہیں لایا گیا کہ کہیں سندھ میں مہاجروں کی آبادی اور نہ بڑھ جائے۔ ہمارے مہاجر لیڈروں نے بھی صرف ان کے نام پر اپنی لیڈری ہی چمکائی اپنے دور اقتدار میں جبکہ وہ چاہتے تو ان مظلوم بہاریوں کو لا سکتے تھے اور جو بےچارے وہاں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ،اب ہمارے ملک میں ان کو بھگوڑا کہا جا رہا ہے، ہمارے سندھ کے کلچر میں نصاب کی کتابوں میں بچوں کے ذہن میں یہ بھرا جا رہا ہے کہ مشرقی پاکستان سے جو مہاجر آئے تھے وہ پاکستان کی محبت میں نہیں بلکہ وہاں سے فرار ہو کر آئے ہیں، بھگوڑے ہیں اور اپنی جانیں بچا کر آئے ہیں کتنے شرم کی بات ہے ہم ان قربانیاں دینے و الوں کو اس طرح ذلیل کریں اور ہمارے ملک کی فوج، عدالتیں اور رہنما اس پر خاموش تماشائی بن کر تالیاں بجاتے رہیں ، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے جس طرح بہاری کمیونٹی کے بارے میں لکھا ہے ، اس کو ہر ذی شعور انسان غلط قرار دے رہا ہے، معاشرتی علوم کی ساتویں جماعت کی کتاب میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کو فوری طور پر نکال دینا چاہئے ، مشرقی پاکستان میں جو لوگ تھے وہ سچے پاکستانی تھے اور اب بھی جو وہاں رہ رہے ہیں وہ پاکستانی ہی ہیں۔ مہاجروں کو بھی پناہ گزین کہا گیا جبکہ مہاجر پناہ گزین نہیں ہیں ، سندھ اور پاکستان کے وسائل پر مہاجروں سے زیادہ کسی قوم کا حق نہیں۔ مہاجروں سمیت سندھ کے تمام مسائل کا حل پاکستان کے جُغرافیہ میں سندھ کی انتظامی تقسیم اور گریٹر کراچی کا قیام ہے یہی وہ بیورو کریٹس ہیں جو اس ملک میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں تاکہ ملک میں بد امنی برقرار رہے اور ان کی نوکریاں چلتی رہیں۔ اس وقت جو اورنگی ٹاﺅن کی بستی ہے وہ صرف بہاری ہی نہیں بلکہ وہاں پر تمام قومیں آباد ہیں جن میں پنجابی، سرائیکی، افغانی، کشمیری، مہاجر، پٹھان شامل ہیں ، اس لئے اس قسم کا تاثر دینا یہ بہت بڑے حادثے کو جنم دے سکتا ہے اس سے نفرتوں میں اضافہ ہوگا اس لئے فوری طور پر حکومت کو ایکشن لینا چاہئے اور ایسے نفرت آمیز مواد کو نصاب سے نکال دینا چاہئے تاکہ لوگ گھروں سے باہر نکل کر سراپا احتجاج نہ بن جائیں۔