رعنا کوثر
زندگی کے سفر میں ہم آگے بڑھتے ہیں اور پیچھے بہت ساری یادیں چھوڑ جاتے ہیں، آج ایک دوست نے جو کے محلے میں ہی رہتی ہیں واٹس اپ پر ایک نظم بھیجی کہ! اے دوست بتا کیسا ہے
کیا محلہ اب بھی ویسا ہے
پرانے محلے کے بارے میں بڑی خوبصورت حساس شاعری ہے کہ اب بھی وہاں وہ سب ہوتا ہے جو پہلے ہوتا تھا، وہاں کے لوگ کیسے ہیں وغیرہ وغیرہ، میں نے اپنی اس محلے دار سے کہا کہ اس محلے کی بھی خبر لے لو جہاں ہم رہتے ہیں۔ جواب میں ایک ہنستا ہوا چہرہ سکرین پر سٹکر کی صورت میں آگیا۔ امریکہ کا محلہ بے شک پاکستان کے محلے سے مختلف ہے مگر ہم یہاں محلے والے ان کو ہی کہتے ہیں جو ہمارے دیسی خاندان ہماری عمارتوں میں رہتے ہیں یا یہاں ایک ہی بلاک میں ارد گرد رہتے ہیں۔
آپ یقین کریں کہ ایک زمانہ تھا جب امریکہ میں رہتے ہوئے بھی لوگ ایک دوسرے کو محلے دار سمجھتے تھے۔ دو تین بلاک دور جتنے دیسی گھر آباد ہوتے تھے وہ سب ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے اور ملتے تھے، ایک دوسرے کی خبر بھی رکھتے، دکھ سکھ میں بھی بہت زیادہ شریک رہتے۔ یوں لگتا ایک خاندان ہے، لوگ اپنے خاندان کو چھوڑ کر آئے تھے مگر کوئی کمی نہیں محسوس ہوتی تھی، سب ایک دوسرے کو ہر بات کی مبارکباد دینے جاتے، ایک دوسرے کی دکھ بیماری میں خبر گیری کرتے، بہت سے لڑکے اکیلے رہتے تھے، ان کے د وستوں کی بیویاں، مائیں، بہنیں انہیں اکیلے ہونے کا احساس نہ ہونے دیتیں، کھانے پینے کا خیال رکھا جاتا، بہت ساری لڑکیاں اکیلے رہتی تھیں۔ فیملی والے ان سے اپنی بیٹیوں جیسا سلوک کرتے اور یوں مل جل کر یہاں لوگوں نے اپنا کڑا وقت گزارا۔ اب اکثر لوگوں کے خاندان آچکے ہیں اور یہاں بہت کم لوگ ہیں جو اکیلے ہیں مگر اب پہلے جیسا بھائی چارہ اور محبت نظر نہیں آتی ،محلے میں بہت پاکستانی اور دیسی رہتے ہیں مگر کوئی نہ تو تکلیف کے وقت میں کسی کو ٹائم دیتا ہے اور نہ ہی خوشی کے وقت۔
اب محلے کی خبر کسی کو نہیں ہوتی، محلے کی خوبصورتی ختم ہو چکی ہے، چاہے امریکہ ہو کہ پاکستان۔اب وہ پیار بھرا ماحول ختم ہو چکا ہے، ہم دور کی خبر تو رکھتے ہیں قریب کی نہیں۔ ہم کو یہ تو پتہ ہے کہ ہماری دوست جو آسٹریلیا میں رہتی ہے کیسی ہے مگر قریب کی خبر نہیں۔ برابر والے گھر میں جو دیسی خاندان آباد ہے اس کی خبر نہیں ہوتی۔ اسلام میں محلے پڑوسی کے بے حد حقوق بتائے جاتے ہیں ویسے تو ہم کو اپنے ہر پڑوسی کا حق ادا کرنا چاہیے چاہے وہ عیسائی ہو کہ کسی اور مذہب کا مگر فطری طور پر اپنے ہم وطن ہم مذہب کا خیال کرنے کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے اور امریکہ آکر بھی یہی دل چاہتا ہے کہ اپنے پاکستانی پڑوسی کا زیادہ خیال کیا جائے، شاید ہم وطن سے لگاﺅ زیادہ ہوتا ہے مگر بڑے نا امید ہوتے ہیں جب پڑوسی ہی مدد لینا نہ چاہیں، جب پڑوسی ہی خبر گیری کی پرواہ نہ کریں، جب پڑوسی ہی دور والوں کو مدعو کریں مگر پڑوسی کو کبھی چائے کیلئے بھی نہ پوچھیں۔ شاید چند اچھے پڑوسی رہ گئے ہونگے ورنہ اکثر گھروں کے اور محلوں کے قاعدے بدل گئے ہیں۔ اب ہم ایک سٹیٹ سے دوسری سٹیٹ چلے جائیں یا محلہ چھوڑ دیں۔ بہت عرصے بعد پتہ چلتا ہے کہ کوئی چلا گیا اور جانے والا بھی پلٹ کر نہیں پوچھتا کہ !
اے دوست بتا کیسا ہے
کیا محلہ اب بھی ویسا ہے