رعنا کوثر
انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا تو اس نے سب سے پہلے اپنے جیسی ایک مخلوق ہی دیکھی، خالق کو نہیں دیکھا۔ اس کے اور خالق کے درمیان ایک پردہ ہے اور یہ پردہ جب اللہ چاہے گا اٹھے گا مگر انسان جو کہ انسان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہر جگہ اسے انسان سے ہی واسطہ پڑتا ہے کام پر،گھر میں، بازار میں، وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود اللہ نے ایک پردہ انسانوں کے درمیان بھی اسی طرح کھینچ دیا ہے کہ اس کے بے شمار غلط فیصلے ، خیالات اور چھوٹے بڑے گناہ صرف اس کے اور اللہ کے درمیان رہ جاتے ہیں۔ اور اس کے درمیان رہنے والے انسانوں کو پتہ بھی نہیں چلتا ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے تو نہ تو غلط کام کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے نہ سوچنے کیلئے اتنا بڑا دماغ، مگر شعور کی آنکھ کھولتے ہی دنیا کی کشش، اس سے بہت سارے ایسے کام کرا لیتی ہے جس کے بارے میں وہ بعد میں جب سوچتا ہے پشیمان ہوتا ہے کیونکہ اللہ کا انسان پر احسان ہے کہ اس نے انسان کی فطرت میں ایک ایسی کسوٹی رکھ دی ہے جس سے اسے خود بخود اپنے اچھے بُرے اعمال کا پتہ چلتا رہتا ہے اور جب بھی وہ فطرت کےخلاف شعوری یا غیر شعوری طور پر مختلف ذہنی رحجانات کے زیر اثر کوئی کام سر انجام دیتا ہے یا اس کی سوچ فطرت سے ہم آہنگ نہ ہو تو اسے اپنے اندر ایک خلش کا احساس ضرور رہتا ہے یہی ضمیر کہلاتا ہے جو یا تو اس وقت یا بعد میں اسے احساس دلاتا ہے کہ اس نے کوئی غلط کام کیا ہے پھر یا تو وہ اللہ سے معافی مانگ لیتا ہے یا دنیا سے ڈر کر وہ کام چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اسے اس دنیا میں انسانوں کےساتھ رہنا ہے۔ اپنا کلچر اپنی سوسائٹی کی سوچ کے تحت وہ یہ سوچ کر کانپ جاتا ہے کہ یہ بات لوگوں کو پتہ چلے گی تو کیسا لگے گا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ کے کرم سے اس کے اکثر کاموں پر پردہ ہی پڑا رہتا ہے اس کی کوشش کامیاب ہوتی ہے۔ اپنی عزت رکھنے کیلئے وہ کچھ نہ کچھ تدابیر کرتا ہے دنیا سے اپنے، اپنی اولاد کے اپنے بہن بھائیوں کے بہت سارے عیب چھپانے میں کامیاب ہو جاتا ہے وقت گزر جاتا ہے نہ تو وہ بات کسی کے علم میں آتی ہے اور نہ اسے خود یاد رہتی ہے۔ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے کبھی وہ اس بات کیلئے دعا کرتا ہے اور کبھی بغیر دعا کئے ہی سب کچھ پردے میں رہتا ہے نہ صرف پردہ داری ہو جاتی ہے بلکہ اللہ کی خاصی رحمت سے کچھ ایسے کام بھی اللہ کرا دیتا ہے کہ وہی انسان بہت عزت کما لیتا ہے، بردباد کہلاتا ہے یہ اس پر اللہ کا کرم ہوتا ہے مگر کبھی کچھ لوگوں کےساتھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کا بُرا کام کوئی حرکت کوئی جرم نہ صرف دنیا کے سامنے آجاتا ہے بلکہ یوں پردہ ہٹتا ہے کہ اس کی شخصیت کی تمام برائیاں یوں سامنے آتی ہیں کہ اچھائی پردے میں چلی جاتی ہے۔
یہی موقعہ ہے یہ سوچنے کا کہ ہم دنیاوی رسوائی سے بچے ہوئے ہیں چاہے ہم یہ سوچ لیں کہ ہم نیک ہیں دین پر چل رہے ہیں چاہے ہم یہ سوچ لیں کہ ہم بہت محتاط اور سمارٹ ہی۔ چاہے ہم یہ سوچ لیں کہ غلط کام کا یہی انجام ہوتا ہے۔ مگر یہ سارے انعامات ہیں جو اللہ نے آپ کو دیئے ہیں۔ جن کمزوریوں پر اس نے پردہ ڈالا ہوا ہے اس کے بارے میں سوچ کر کسی کی رسوائی ہونے پر اس کا پردہ ضرور رکھیں۔
٭٭٭