”میرا جسم میری مرضی” کے دعویدار امریکی دانشور، اکٹوسٹ اور سیاستدانوں کاادراک اِس ضمن میں صرف اِس حد تک محدود ہے کہ کسی نہ کسی بہانے ملک کے اقتدار اعلی پر اُنکا قبضہ جما رہے۔ کبھی وہ سیاہ فام افراد کو انصاف دلوانے کی باتیں کرتے ہیں تو کبھی اُنکا مطمع نظر اسقاط حمل کے حقوق کا حاصل کرنا بن جاتا ہے۔ لیکن وہ اِس حقیقت کو قطعی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ سال 1973 ء سے آج تک 19 ملین سیاہ فام بچوں کو اسقاط حمل کے ذریعہ موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ہے۔ باالفاظ دیگر سیاہ فام امریکییوںکی افزائش نسل اُس پیمانے پر نہ ہوسکی جو آبادیاتی نقطہ نظر کے متقاضی تھی۔ کسی اسٹیٹ میں جہاں سیاہ فام افراد کی آبادی 14 فیصد تھی وہاں اُن کے اسقاط حمل کا اعداد و شمار 60 فیصد سے بھی زائد رہا۔ بقول ایک گورے دانشور کہ اگر اسقاط حمل کو آبادی کے کنٹرول کیلئے نہ استعمال کیا جائے تو ہر جانب سیاہ فام افراد ہی منڈلاتے نظر آئینگے، ہمارے گھر کے بیک یارڈ میں بھی اُن کا خیمہ تنا ہوا نظر آئیگا، اور چند سال بعد ہی امریکا افریقہ بن جائیگا۔ ٹھیک ہے اِن دنوں ہیلتھ انشورنس کی کمپنیاں مائیں بننے والوں کی ایسی نگرانی کرتیں ہیں جیسے وہ بچے کو نہیں بلکہ سونے کی کان کو جنم دینے والی ہوں۔ میرے دوست چوہدری صاحب کو بھی اُنہوں نے ایک رقعہ بھیج دیا ہے کہ وہ اپنی پِریگ ننسی کا خاص خیال رکھیں ، کس طرح کی ورزش کیا کریں اور کیا کیا کھائیں پئیں۔ رقعہ کو دیکھ کر چوہدری صاحب کو سخت غصہ آگیا اور اُنہوں نے انشورنس کمپنی والوں کو کال کرکے چیختے ہوے کہا کہ ” اُلو کے پٹھوؤں تمہیں یہ بھی نہیں پتا کہ میں مرد ہوں یا عورت ، میں بچے جنم دے سکتا ہوں یا نہیں؟” انشورنس کمپنی کے نمائندے نے اُن سے معذرت چاہتے ہوے جواب دیا کہ” چونکہ اُن کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ مرد حضرات بھی اِن دنوں بچے جنم دے رہے ہیں، لہذا ہماری کمپنی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اُن کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے ، اِسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوے ہم لوگوں نے بلا امتیاز ہر ایک کو احتیاطی رقعہ بھیج دیا ہے”۔
بہر نوع سوچنے کی بات ہے کہ ایک جانب احتیاطی طور پر مرد حضرات کو بھی پِریگ ننسی بر قرار رکھنے کیلئے رقعہ بھیجا جارہا ہے ، تاکیدیں کی جارہی ہیں اور دوسری جانب کنواری ماؤں کو گھر کے تہہ خانے میں اسقاط حمل کی ظالمانہ کاروائی سے گذرنے کو ایک کامیاب بزنس بنا دیا گیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے ببانگ دہل یہ کہا ہے کہ اگر وہ خاتون ہوتے تو ضرور ایبورشن کرایا ہوتا، جس پر ریپبلکن پارٹی کے نمائندوں نے جواب دیا کہ اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ شاید اُنہوں ٹال مٹول کے باوجود بھی ایبورشن کر ایا ہو۔ اِس لئے ضروری ہے کہ امریکا کے سرجن جنرل اُنکا طبّی معائنہ کرکے عوام کو یہ بتائیں کہ امریکی صدر ایبورشن سے پاک و صاف ہے۔
رو بماقبلہ وید ایک معرکتہ ا لآرا فیصلہ ہے جسے امریکا کے سپریم کورٹ نے 1973ء میں صادر کیا تھاجس کے رو سے امریکا کا آئین ایک حاملہ خاتون کو حکومتی احکامات سے بالاتر ہوکر ایبورشن کرانے کی آزادی کو تحفظ دیتا ہے۔ اِس فیصلے نے امریکی ریاستوں اور فیڈرل احکامات کی مکمل طور پر دھجیاں اُڑاکر رکھ دیاہے ۔ تاہم ایک خاتون نورما میکوری کے مقدمے نے آئین کی اِس شق کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ نورما میکوری جو اپنے تیسرے بچے کی ماں بننے والی تھی، ایبورشن کروانے کی درخواست دی تھی، لیکن اُس کی رہائش ٹیکساس میں تھی جہاں ایبورشن کرانا ممنوع تھا۔ میک کوری کے وکیل نے ٹیکساس کے مقامی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے خلاف ایک مقدمہ دائر کردیا کہ وہاں کے ایبورشن کا قانون غیر آئینی ہے۔ تین فیڈرل ججوں کے ایک پینل نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ ہنری وید کے حق میں سنادیا۔ لیکن ٹیکساس کے ڈسٹرکٹ اٹارنی نے ایک اپیل براہ راست سپریم کورٹ میں داخل کردی۔ مذکورہ فیصلہ متعدد مرتبہ مختلف النوع فورم میں چیلنج کیا گیا اور تازہ ترین سپریم کورٹ کے ایک خفیہ دستاویز جو غیر قانونی طور پر لِیک ہوئی ہے اُس کے تحت امریکا کے سپریم کورٹ کی اکثریت کے ججوں نے رو اور وید کے مقدمے میں ایبورشن کو ممنوع قرار دے دینگے یا اِ س متنازع امور کو فیڈرل گورنمنٹ سے اسٹیٹس حکومتوں کو منتقل کر دینگے۔ بیشتر اسٹیٹس کی حکومتیں ایبورشن کروانے کی سختی سے مخالفت کرتیں ہیں، جبکہ نیو یارک اسٹیٹ میں اِس کی پوری آزادی ہے۔
روبماقبلہ وید کے فیصلے کا معطل کیا جانا بذات خود امریکا میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ بن گیا ہے۔ اِس فیصلے کی حامی عورتیں سڑکوں پر چلی آئیں ہیں اور ہر شہر کے گلی کوچوں میں مظاہرہ کر رہی ہیں۔ معتبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بائیڈن حکومت کا خفیہ ہاتھ امریکا کی تاریخ کے ایک اہم راز کو لِیک کرنے میں ملوث ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہر شعبہ حیات میں چاہے وہ افراط زر ہو یا جرائم ، یوکرین ہو یا میکسیکو سے غیر قانونی تارکین وطن کی یلغار پر پردہ ڈالنے کیلئے بائیڈن کی حکومت نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ بائیں بازو کے انتہا پسندوں نے سپریم کورٹ کے چھ قدامت پسند ججوں کے گھر کا نام و پتہ بھی آن لائن پوسٹ کردیا ہے، جس کی وجہ کر اُن ججوں کی زندگی بھی خطرے میں پڑگئی ہے۔ توقع اب یہ کی جارہی ہے کہ امریکا کی 100 ملین عورتوں کی خواہشات کا فیصلہ سپریم کورٹ کے بجائے امریکی سینیٹ کرے گی اور نیویارک اسٹیٹ کے چارلس شومر اِس ضمن میں جلد ہی ایک بِل پیش کرینگے۔