اسلام آباد:
پاکستان کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک، گندم کی رسد بحرانی صورتحال سے دوچار ہے۔ غالباً اس بار صورتحال ہمیشہ سے زیادہ سنگین ہے۔
چند ماہ کے دوران گندم کے ذخائر 4.2 ملین ٹن کی سطح تک گرگئے ہیں۔ یہ مقدار بمشکل آئندہ 2 ماہ تک صارفین کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ گندم کی قلت پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ بدانتظامی اور غیرضروری ریاستی مداخلت معیشت کے بیشتر شعبوں بشمول زراعت کی بدتر کاکردگی کی ذمے دار ہے۔
حکومت کی جانب سے زراعت پر سبسڈی اور پروکیورمنٹ اسکیموں سے کسانوں کو غلط پیغام پہنچا۔ مارکیٹ میں غیرضروری مداخلت نے ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹنگ کے لیے مواقع فراہم کردیے۔ اہم بات یہ ہے کہ جولائی 2019 میں گندم کی برآمد پر پابندی لگائے جانے کے بعد حکومت نے 48 ہزار ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دیدی جس کے نتیجے میں ملکی سطح پر قیمتیں بڑھتی چلی گئیں۔
اس قسم کے فیصلوں ہی کی بنیاد پر ملک میں ایسے بحران پیدا ہوتے رہے ہیں۔ گندم کے بحران کی وجہ سے ملکی معیشت اور فوڈ سیکیورٹی پر کئی طرح کے اثرات مرتب ہوں گے: مالیاتی خسارہ بڑھے گا او ر چوں کہ گندم درآمد کی جائے گی تو جاری کھاتے کا خسارہ بھی بلند ہوجائے گا۔ دوسری جانب گندم درآمد کرنے سے اس فصل کے کاشت کاروں کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، کیوں کہ مارچ کے وسط تک 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرلی جائے گی اور انھی دنوں میں سندھ میں گندم کی فصل تیار ہوجاتی ہے۔
گندم کے بحران، زرعی پانی کی قلت اور زیادہ منافع کی امید میں کسان گنے پر گندم کی کاشت کو ترجیح دیں گے۔ کاشت کاروں کی بڑی تعداد پہلے ہی گنا چھوڑ کر گندم کی کاشت کررہی ہے۔ اب اس تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے جس کی وجہ سے چینی کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اور پھر ظاہر ہے کہ غذائی اجناس کی نرخوں میں اضافے کی وجہ سے غذائی افراط زر کی شرح بھی بڑھ جائے گی۔
آٹے اور چینی کی قیمتیں بڑھنے کے بعد اب دودھ فروش بھی دودھ کی قیمت 150 روپے لیٹر مقرر کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ افراط زر کی شرح میں اضافے سے کم آمدنی والا طبقہ بے حد متأثر ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ پالیسی ساز گندم کے حالیہ اور ماضی میں آنے والے بحرانوں کے اسباب کا تعین کریں اور مستقبل میں ان کے سدباب کے لیے اقدامات کریں۔