دہلی فسادات؛ بیٹی کو باپ کی لاش کی جگہ صرف جلی ہوئی ٹانگ ہی مل سکی

0
87

دہلی:

بھارتی دارالحکومت میں مسلمانوں کی نسل کشی کےدوران دل دہلادینے والی کہانیاں سامنے آئی ہیں ان میں سے ایک کہانی گلشن کی ہے جس کے والد محمد انور کو گھر کے اندر جلاکر راکھ کردیا گیا تھا۔

جب گلشن نے خاموشی سے اپنے والد کی تدفین کا ارادہ کیا تو ہسپتال انتظامیہ نے اسے صرف ایک ٹانگ ہی واپس کی جو اس کے مرحوم والد کی تھی۔ امدادی ٹیم محمد انور کے جلے ہوئے گھر میں پہنچی تو لاکھ کوشش کے باوجود اس کی ایک ٹانگ ہی واپس کرچکی۔ اس کی بیٹی گلشن جب گرو تیغ بہادر ہسپتال پہنچی تو ڈاکٹروں نے انہیں طویل انتظار کرایا اور اس کے والد کی ایک ٹانگ واپس کی۔

محمد انور دہلی کے غریب علاقے شیو وہار کا رہائشی تھا جہاں بد ترین مسلم کش فسادات دیکھنے کو ملے یہاں سے شروع ہونے والی مذہبی آگ نے پورے شمال مشرقی دہلی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پلکوا میں رہنے والی گلشن کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ چار سال قبل نابینا ہوجانے والے اپنے شوہر نصیرالدین کے ساتھ اپنے والد کے گھر پہنچی۔ نصیرالدین تیزاب کے حادثے میں نابینا ہوگیا تھا اور کرائے پر ٹھیلے دے کر اور بکریاں پال کر گزارہ کررہا تھا۔

 

گلشن جب گھر پہنچی تو معلوم ہوا کہ اس کے والد کو دو مرتبہ گولیاں ماری گئی تھیں۔ پھر گھر کو آگ لگائی گئی اور اس کے بعد محمد انور کی لاش کو اندر پھینک دیا تھا۔ گھر جلانے سے پہلے تمام سامان لوٹ لیا گیا۔ گلشن کی اپنے والد سے آخری بات 25 فروری کو ہوئی تھی ۔ ان کے والد نےبتایا تھا کہ ہر جگہ بے چینی ہے اور فسادات ہورہے ہیں۔

گلشن نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا کسی نے ان کو مارا ہے تو انہوں نے آخری بات یہ کہی۔ ’نہیں بیٹا بس ہمارے علاقے کو گھیرلیا گیا ہے۔‘

اپنے میکے سے اٹھتے دھوئیں کو چھوڑ کر گلشن اپنے چچا سلیم کی جانب دوڑی جو شیو وہار، پریم وہار کی گلی نمبر ایک کے رہائشی تھے۔ لیکن چچا سلیم کا گھر بھی جلایا جاچکا تھا تاہم وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے تھے۔

گلشن نے بتایا کہ ان کے والد کو مارنے کے بعد فسادیوں نے ان کے چچا کا نام لے کر پوچھا تھا کہ سلیم کہاں ہے؟ یہاں ایک اور مسلمان بھی تو رہتا ہے۔ سلیم اپنے بھائی انور کی شہادت کا عینی شاہد بھی ہے اور اب بھی کسی محفوظ پناہ گاہ میں روپوش ہے۔ گلشن کے ڈی این اے سے اس کے والد کی ٹانگ شناخت ہوئی جسے اب دفنایا جاچکا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here