اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں پر تشدد روکنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش نہ کرنے پر وزارت قانون سے 12 مارچ تک جواب طلب کرلیا۔
بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کی۔ گلوکار شہزاد رائے اپنے وکیل شہاب الدین اوستو کے ہمراہ اور وزیربرائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری بھی عدالت میں موجود تھیں۔
شہزاد رائے نے عدالت کے سامنے کہا بچوں کو جسمانی سزا کی گارڈین (سرپرست) کیسے اجازت دے سکتا ہے، عدالت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 89 کو کالعدم قرار دے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بچوں کو جسمانی سزا دینے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا چاہیے، یہی مائنڈ سیٹ بچوں کے خلاف دیگر جرائم کی بھی بنیاد بنتا ہے، اگر آج میڈیا نہ ہوتا تو کبھی بھی ہمیں ایسے واقعات کا پتہ نہ چلتا، سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ نے معاشرے کی سوچ تبدیل کرنی ہے، سرعام پھانسی دینے سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، انسانی رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پوچھا کہ بچوں پر تشدد روکنے کی قانون سازی کا کیا بنا؟۔ شہزاد رائے کے وکیل نے کہا خیبر پختونخوا اور سندھ میں بچوں پر تشدد روکنے کے لیے قانون سازی ہوئی ہے۔
نمائندہ وزارت تعلیمات نے بتایا کہ عدالت کی ہدایات کے مطابق 10 فروری سے اسلام آباد میں بچوں پر جسمانی سزا پر مکمل پابندی لگا دی، طریقہ کار بنانے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔
ڈاکٹر شیری مزاری نے کہا وفاقی کابینہ سے بھی ایک بل منظور ہو گیا تھا، پھر وزارت قانون نے کہا کہ یہ وزارت داخلہ کا اختیار ہے اور وزارت داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو جانا چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل نے بچوں کو سزا پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا سمجھ نہیں آرہی کہ وزارت داخلہ نے اچھی قانون سازی کو اسلامی نظریاتی کونسل کو کیوں بھیجا ؟، اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے وفاقی کابینہ کے لیے لازم نہیں، جب بل کی کابینہ نے منظوری دے دی تھی پھر وزارت داخلہ کو تو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی جس پر شیریں مزاری نے کہا وزارت قانون اس حوالے سے جواب دے سکتی ہے۔
عدالت نے سیکریٹری وزارت قانون و انصاف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے کہا کہ وزارت قانون بتائے کہ بل قومی اسمبلی میں کیوں پیش نہیں کیا گیا۔ کیس کی مزید سماعت 12 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔ اگلی تاریخ پر عدالت بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست فیصلہ کردے گی۔
یاد رہے کہ عدالت نے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد اور سزا پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے جب کہ گزشتہ سماعت پر وزارت تعلیمات اور چیف کمشنر اسلام آباد سے اس حوالے سے تحریری جواب طلب کیا تھا۔