جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
گذشتہ ہفتے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونےوالے معاہدے کو جنوبی ایشیائی خطے کیلئے بالخصوص اور عالمی امن کیلئے ایک تاریخی اقدام قرار دیا جا رہا ہے ۔دوحہ میں ہونےوالے اس معاہدے پر طالبان کی جانب سے ملا برادر اور امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد نے دستخط کئے جبکہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ (وزیر خارجہ) پومپیو بھی اس موقع پر موجود تھے جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ تقریباً پچاس ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر امریکہ اور طالبان کے معاہدے تک آنے کیلئے پاکستان کے کردار کو مائیک پومپیو اور ملا برادر نے خوب سراہا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس ایشو پر پاکستان کی خصوصاً 2010ءسے کی جانیوالی کوششیں ہر گز نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔
9/11کے تناظر میں اکتوبر 2001ءمیں امریکہ کی افغانستان پر چڑھائی کے پاکستان پر جو اثرات پڑے اور ہزاروں جانوں کی شہادتوں اور اربوں ڈالر کے معاشی خسارے کی تفصیل میں جائے بغیر امریکہ اور اس کے نیٹو حلیفوں کا دس سال میں جو حشر ہوا اس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتاہے کہ اپنی افواج کے قیام کیلئے ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کے اخراجات برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں اپنے فوجیوں کی ہلاکت اور معذوری کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اپنی تمام تر کوششوں اور وسائل کو بروئے کار لانے کے باوجود وہ اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ پا رہا تھا۔ افغانستان امریکہ کیلئے ویت نام کی طرح حلق کی ہڈی بن چکا ہے اور امریکہ یہ نہیں چاہتا کہ ویت نام اور عراق کی طرح افغانستان میں بھی اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔ پاکستان امریکی دباﺅ اور ڈُو مور کے مطالبہ میں گھرے ہونے کے باوجود مسلسل اس مو¿قف پر مصر تھا کہ مسئلے کا حل مذاکرات ہی میں ہے۔ سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں افغان طالبان سے مذاکرات کی سوچ کا آغاز ہوا اور بیک ڈور چینل مراحل سے اس بات کی کوششیں ہوئیں لیکن دوسری جانب خطہ میں چین پر دباﺅ رکھنے کی پالیسی کے تحت امریکی انتظامیہ کی توجہ بھارت کو فوقیت دینے پر رہی اور افغانستان کے حوالے سے بھی بھارت کو بڑھاوا دیا جاتا رہا۔ بھارت نے ازلی پاکستان دشمنی کے تناظر میں راءاور این ڈی ایس کے اشتراک سے پاکستان مخالف سرگرمیوں کو جاری رکھا اور افغانستان میں امن کے قیام اور طویل محاذ آرائی پر ترجیح دینے کی بجائے اس صورتحال کو جاری رکھنے کو اپنا مفاد سمجھا۔
امریکہ، طالبان معاہدہ کی کہانی کے پس منظر میں جائیں تو متذکرہ بالا حالات کے تسلسل میں 2016ءکے انتخابات میں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے اتحادی افواج کی واپسی اور امن کے قیام کو اپنے منشور کا حصہ بنایا اور اس امر کا وعدہ کیا کہ اگلے انتخابات سے قبل وہ اس ایشو کو روبہ عمل لائے گا۔ اگرچہ امریکہ نے اپنے زیر اثر افغان عناصر کو انتظامی و ریاستی امور پر لا بٹھایا۔ طالبان کے متحارب گروپوں کو ملانے کی کوششیں کیں، کرزئی سے اشرف غنی تک اپنے مفادات کیلئے حکومتیں بنوائیں لیکن طالبان کا اثرو رسوخ ختم نہ کر سکا۔ افغانستان کے 60 فیصد علاقے آج بھی طالبان کے زیر اثر ہیں۔ افغان حکومت محض کابل تک ہی محدود ہے افغان حکومت کے معاملات کو چلانے اور اتحادی افواج کے رہنے کیلئے امریکہ کو ہر سال پانچ سے چھ بلین ڈالر کا بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے جو امریکی معیشت پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب امریکی فوجیوں کی ڈیڈ باڈیز اور زخمی و معذور فوجیوں کی مسلسل آمد سے امریکی معاشرت و سائیکی پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں امریکی انتظامیہ کے سامنے واحد راستہ یہی تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر نجات کا راستہ نکالا جائے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے بالخصوص خطے کے معروضی حالات میں امریکہ کے پاس اس کے سواءکوئی چارہ نہ تھا کہ پاکستان کے توسط سے نیز خطے کی دیگر اہم ریاستوں کے تعاون سے افغان امن عمل کی کوشش کی جائے، اس حوالے سے گزشتہ برسوں میں پاکستان کے علاوہ روس، چین اور دیگر ممالک کو LOOP میں لیا گیا، طالبان کو اعتماد میں لینے کیلئے متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ اجلاس منعقد ہوئے اور نتیجتاً قطر میں امریکہ و طالبان میں یہ معاہدہ عمل میں آیا۔ چار صفحات پر مشتمل یہ ایک مشروط معاہدہ ہے جو امریکی حکومت اور اسلامک اسٹیٹس آف افغانستان کے درمیان عمل میں آیا ہے۔ اس معاہدے کی رُو سے امریکہ نے طالبان کو تسلیم نہیں کیا ہے،ا سی لئے جہاں اسلامک اسٹیٹس کا ذکر کیا گیا ہے وہاں امریکہ کے حوالے سے لفظ ”طالبان “استعمال ہوا ہے معاہدہ سے قبل طالبان کو امریکہ کی یہ شرط ثابت ماننا پڑی کہ ایک ہفتے تک کوئی دہشتگردی یا محاذ آرائی کا واقعہ نہیں ہوا۔ معاہدہ کی اہم تفصیلات کے مطابق 10 مارچ سے قبل افغان حکومت پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان امریکہ و نیٹو کے ایک ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کرینگے۔ امریکہ اگلے چار ماہ میں اپنے موجودہ تیرہ ہزار فوجیوں میں کمی کر کے 8600 کی تعداد پر لائے گا اور بقیہ فوجی 14 ماہ کی مدت میں واپس جائینگے۔ افغانستان میں امن کے قیام اور حکومتی و ریاستی معاملات کیلئے انٹرا افغان ڈائیلاگ ہونگے جو حکومت، طالبان اور دیگر فریقوں کے درمیان ہونگے۔ افغانستان کی سرزمین امریکہ، نیٹو ممالک یا کسی بھی ملک کےخلاف استعمال نہیں کی جائےگی۔ امریکی حکومت افغانستان میں حکومت اور ریاست کے استحکام و تسلسل کیلئے مالی وسائل فراہم کرےگی۔ کوئی فورس استعمال نہیں کی جائےگی نہ ہی افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل دیا جائےگا۔
بادی¿ النظر میں گزشتہ چار دہائیوں سے روس و امریکی قبضے اور متحارب گروپوں کے درمیان جنگ و جدل اور بد امنی میں گھرے ہوئے افغانستان کیلئے نہ صرف یہ معاہدہ بہت اہم ہے بلکہ خطے اور دنیا میں امن کیلئے ایک تاریخی قدم ہے۔ اس میں پاکستانی ریاست و حکومت کا گرانقدر کردار یقیناً درخشاں ہے جس کی تعریف نہ صرف امریکی وزیر خارجہ، طالبان رہنماو امریکی صدر اور دیگر عالمی رہنماﺅں نے بھی کی ہے لیکن تمام تر خوبیوں کے باوجود ابھی اس معاہدے کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ اس حوالے سے تحفظات و شبہات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ معاہدے کے فوری بعد اشرف غنی کا طالبان کو رہا کرنے کے مو¿قف کہ یہ ہمارا معاملہ ہے،ا مریکہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور اس کا فیصلہ انٹرا افغان ڈائیلاگ میں ہوگا۔ اس پر طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے واضح کر دیا کہ ایسی صورت میں معاہدہ غیر موµثر ہو جائےگا اور مخالفانہ بیانات اور دیگر Spoilers بشمول این ڈی ایس کے سربراہ کے مخالفانہ روئیے اس امر کی نشاندہی ہے کہ یہ بیل آسانی سے منڈھے نہیں چڑھے گی۔ خود امریکی میڈیا اور سابق سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن اور سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزا رائس کے بقول، ٹرمپ نے اپنے اگلے انتخابات میں جیت کیلئے یہ کھیل رچایاہے اس پر عملدرآمد ممکن ہی نہیں، ادھر افغانستان کے اندر بھی باہمی مخالفتوں، اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے حالیہ انتخابات کے بعد بڑھتے ہوئے اختلافات، متعدد گروپوں کے درمیان اتفاق و ہم خیالی کے فقدان کے باعث انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی کے معدوم امکانات نظر آتے ہیں۔ بھارت اور مودی کشمیر اور بھارت میں اپنی متعصبانہ اور مسلم دشمن پالیسیوں اور بحران کے سبب کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ یہ معاہدہ کامیابی کی جانب گامزن ہو۔ گویا اس معاہدہ کے موµثر اور عمل پذیر ہونے کیلئے ابھی بہت سی کٹھنائیاں اور دُشوار مراحل ختم کرنے ہونگے ایک مشہور شعر میں تحریف کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے!
معاہدے سے آگے جہاں اوربھی ہیں
امن کیلئے امتحان اور بھی ہیں
پاکستان کی ریاست اور حکومتوں خصوصاً کپتان کی موجودہ حکومت کی مسلسل کاوشوں اور بہتر و مثبت پالیسی کے باعث چار دہائیوں کا شکار یہ قضیہ امن کی کوششوں کا آغاز تو ہوا ہے لیکن اس کی بخوبی تکمیل کیلئے ابھی بہت سے مراحل اور طے ہونے ہیں اور اس کیلئے نہ صرف امریکہ و افغانستان کا صحیح ٹریک پر رہنا بہت ضروری ہے بلکہ اس کےساتھ ہی خصوصاً خطے کی ریاستوں چین، روس، ایران سمیت دیگر کو بھی عالمی امن کیلئے متفق کرنے اور مو¿µثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ابھی اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ امریکہ اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کےساتھ بھارت کو شٹ اپ کال دے تاکہ یہ امن کا منصوبہ جو چھ ماہ یا سال کا نہیں بلکہ برسوں میں تکمیل کا متقاضی ہے پائیہ¿ تکمیل کو پہنچ سکے۔
٭٭٭٭