ہمارا دل تو نہیں چاہتا کہ وطن عزیز کے حوالے سے کسی منفی خیال یا وسوسے کو اپنے کالم میں زیر تحریر لائیں مگر کیا کریں کہ سیاست سے کھیل تک بشمول کاروبار، تجارت، معیشت، حکومت ہر طرف گند ہی گند نظر آتا ہے اور وطن و عوام کے حالات زار پر قلم اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات کی درماندگی کا اصل منبع وہ دائرہ ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے اور اس کا کنٹرول ان ہاتھوں میں ہے جو ملک کے ہر سیاہ و سفید پر اختیار رکھتے ہیں، جنہیں عرف عام اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس تمام کھیل کی بنیادی اکائی سیاست و اقتدار کا راستہ ہے جو عوام کے حق رائے دہی کو نظر انداز کر کے با اختیار کی مرضی و منشاء اور فیصلوں پر منحصر ہوتا ہے۔ بگاڑ یہاں سے شروع ہوتا ہے، ذاتی مفادات، نا اہلی اور موقع پرستی کی بناء پر ملک کے دیگر شعبوں میں سرایت کرتا ہوا آج یہ ناسور کی صورت میں موجود ہے کہ ملک کے استحکام، خوشحالی، عوام کی بہتری و ترقی کے نام پر ہر وہ برائی جو کسی بھی صورت میں سکۂ رائج الوقت ہے۔ گزشتہ پچاس سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اقتداری دائرے کیلئے لاڈلے کا ٹیگ لگا کر کسی ایسے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے جو اصل مختاروں کے ایجنڈے پر بلا چوں و چرا عمل کرتے رہیں۔ انتخاب کا ڈرامہ رچانے کیلئے اور لاڈلے کی کامیابی کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ گماشتوں، گروپوں کو ملا کر انتخابی کامیابی یقینی بنایا جاتا ہے خواہ لاڈلے کو عوامی حمایت حاصل ہو یا نہ ہو۔ ماضی کی تفصیل سے گریز کرتے ہوئے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو اس وقت متعدد بار کا آزمایا ہوا تین بار کا وزیراعظم، دوبار کا وزیراعلیٰ، ہر بار مقتدرین سے جھگڑنے اور نکالنے جانے والا مفرور، سزا یافتہ، نا اہل نوازشریف ”لاڈلا” قرار پایا ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی وہ سارے طریقے اور اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں جو اس دائرے کیلئے ماضی میں بھی کئے جاتے رہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی ایم کیو ایم سے انتخابی اتحاد، باپ کے لوگوں کی ن لیگ میں شمولیت اور جو باپ میں رہ گئے ہیں ان کی نواز لیگ کی حمایت جی ڈے اے، نورانی گروپ، سندھ و پنجاب سے چھوٹی پارٹیوں اور حال ہی میں نئی پارٹیو ںکے نوازشریف کے حق میں جانے کا مقصد یہی ہے کہ کسی بھی طرح عوام کے حقیقی رہنما عمران خان کی جماعت کو اس کی آج بھی سب سے زیادہ مقبولیت کی بناء پر کامیابی سے دور رکھا جائے۔ مقتدرین اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیلٹ پیپر پر اگر بلا نشان ہوگا اور الیکشن اگر شفاف ہوئے (جس کی امید نہیں) تو پی ٹی آئی کی جیت یقینی ہے۔ اسی خوف کے پیش نظر عمران پر طرح طرح کے مقدمات، قید کے تسلسل کیساتھ عدالتوں و تفتیشی و تحقیقی اداروں پر مسلسل دبائو اور متاثر ہونے کے سلسلے جاری ہیں۔ یہی نہیں اس کی اہلیہ، بہنوں اور وفاداروں پر بھی مختلف الزامات پر مقدمے بنائے جا رہے ہیں۔ تازہ ترین واردات یہ ہے کہ 9 مئی کے حوالے سے سابق چیف جسٹس کے سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہ چلائے جانے کے فیصلے کیخلاف سینیٹ میں قرارداد پاس کر کے موجودہ چیف جسٹس کے سامنے معاملے کو لے جانا طے کیا ہے۔ یہ ظلم بلکہ گند نہیں ہے؟
بات عمران خان اور تحریک انصاف تک ہی نہیں، فیصلہ سازوں نے موجودہ لاڈلے نوازشریف کو کامیاب کرانے اور جیت یقینی بنانے کیلئے پیپلزپارٹی کیساتھ بھی ہاتھ کر دیا ہے، سندھ میں پی پی پی کی برتری اور جیت کے تسلسل کو ختم کرنے کیلئے بھی پورا کام لگایا ہوا ہے۔ سطور بالا میں ہم اس کا ذکر کر چکے ہیں کہ نواز لیگ کا ایم کیو ایم، جی ڈے اے اور دیگر چھوٹی و قوم پرست جماعتوں سے اتحاد بے معنی نہیں۔ فیصلہ سازوں کا پلان بہت واضح ہے کہ پنجاب سے اگر ن لیگ واضح اکثریت (عوام میں عدم مقبولیت کے سبب) نہ بھی لے سکے تو سندھ، کے پی اور بلوچستان سے چھوٹے گروپوں اور پارٹیوں کے ساتھ آزاد کامیاب امیدواروں کو ملا کر نواز لیگ کو اقتدار سونپا جا سکے۔ ہو سکتا ہے بعض قارئین ہمارے مؤقف سے اتفاق نہ کریں لیکن کیا اس سچائی کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ وفاقی و صوبائی نگراں حکومتوں کا رویہ اور کردار غیر جانبدارانہ ہونے کے برعکس واضح طور پر ن لیگ کی جانب جھکائو کی نشاندہی کر رہا ہے۔ یہی وہ دائرہ ہے جس کی ہم نے آغاز میں نشاندہی کی ہے۔ جنرل ضیاء سے لے کر آج تک لاڈلے کے کھیل میں یہ تازہ ترین قسط ایک ہی ایجنڈے کا تسلسل ہے بلکہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ 1998(قسط) کا سیکوئیل ہے۔ نوازشریف کو لاڈلا بنایا تو جا رہا ہے لیکن کیا ضمانت ہے کہ نوازشریف ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ بلکہ آرمی چیف سے پنگا نہیں لے گا۔ یہ بات بھی سمجھ سے بعید ہے کہ آزمائے ہوئے کو آزمانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ مثل مشہور ہے ”آزمودہ را آزمودن جہل ہست”۔
٭٭٭