نوید اطہر، لاہور
چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سامنے بند باندھنے کی غرض سے امریکہ اور بھارت تزویراتی‘اسٹریٹجک اتحادی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت کا حالیہ دو روزہ دورہ اسی اتحا د کو مزید مضبوط و مستحکم بنانے کی سمت ایک اور قدم تھا۔ اس دورہ میں صدر ٹرمپ نے بھارت کو جدید ترین امریکی اسلحہ بیچنے کا اعلان کیا ‘ انہوں نے بھارتی ریاست کی جانب سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کے ہندو انتہا پسند وزیراعظم نریندرا مودی کو ایک غیرمعمولی رہنما قرار دیا۔ٹرمپ نے مودی کی تعریفوں کے پ±ل باندھتے ہوئے کہا کہ وہ بڑے مذہبی اور پ±رسکون آدمی ہیں۔وہ یہ باتیں ایسے وقت کہہ رہے تھے جب دلی میں ہندو انتہاپسند اور حکمران جماعت بی جے پی کے غنڈے مسلمانوں کے مکان اور دکانیںجلارہے تھے ‘ مسلمانوں کو قتل کررہے تھے۔ ٹرمپ کے بھارت میں دیے گئے بیانات امریکہ کی منافقانہ پالیسی اور طرزعمل کے آئینہ دار تھے۔ جب کسی ملک سے سیاسی‘ معاشی مفادات مشترک ہوں تو امریکہ اپنے تمام نام نہاد اصول پسِ پشت رکھ دیتا ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری‘ قانون کی حکمرانی ایسے اصول ہیں جنہیں امریکی ریاست صرف اپنے مخالفین کو دبانے اور انہیں سزا دینے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ امریکہ اور بھارت میں دوستی کی ابتدا ئ بیس برس پہلے امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں ہوئی‘ جارج بش اور بارک اوبامہ کے دور میںاس اتحاد کو فروغ ملا لیکن ٹرمپ کے دور میں یہ دوستی بہت تیزی سے آگے بڑھی ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں نریندرا مودی امریکہ کے دورہ پر گئے تھے جہاں امریکہ میں رہنے والے پچاس ہزاربھارتیوں کا ایک جلسہ عام کیا گیا۔ اس جلسہ کو ’ ہاو?ڈی مودی‘ کا نام دیا گیا تھا جس سے مودی اور ٹرمپ دونوں نے خطاب کیا تھا۔ اب پانچ ماہ بعد مودی نے ٹرمپ کے لیے احمد آباد میں ایک لاکھ افراد جمع کرکے ’نمستے ٹرمپ‘ کا اہتمام کردیا۔ دونوں رہنماو?ں کے درمیان ایک ذاتی تعلق قائم ہوچکا ہے۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ مودی سے تعلق کی وجہ سے انہیں امریکہ میں بھارتی نڑادشہریوں کے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ مودی کا خیال ہے کہ امریکی صدر کے بھارت آنے اور ان سے بغل گیر ہونے سے ایک لیڈر کے طور پر ان کے قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ دونوں رہنماو?ںکی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت نے انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے میںاہم کردار ادا کیا ہے۔ ٹرمپ اور مودی کے ذاتی تعلقات سے بڑھ کر بھارت سے دوستی اور شراکت امریکہ کی انڈو پیسیفک حکمت ِعملی کا اہم حصّہ ہے۔انڈو پیسیفک خطّہ سے مراد بحرِہند ‘ مغربی اور وسطی بحرالکاہل اور انڈونیشیا کاو ہ بحیرہ ہے جو ان دو بڑے سمندروںکو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس حکمت ِعملی کا مقصدان دو سمندروں کے کنارے واقع ممالک کے درمیان اتحاد قائم کرنا ہے تاکہ چین کو قابو میں رکھا جاسکے اور امریکہ کی دنیا میں تھانیداری برقرار رکھی جاسکے۔ امریکہ کا سرکاری طور پرکہنا ہے کہ انڈو پیسفک حکمت ِعملی اسکا اس خطّہ سے ایک طویل مدّتی ‘ آہنی عہد ہے۔اس موضوع پر امریکہ کی سرکاری دستاویز بھی جاری کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ بحر ہند میں چیلنجوں سے نپٹنے کی خاطر امریکہ اپنے شراکت داروں پر انحصار کرے گا جن میں بھارت‘ مالدیپ‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل ہیں۔ دوسری طرف‘ انڈو پیسفک اتحاد میں شامل ہوکر بھارت کو اپنے علاقائی عزائم کی تکمیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ بھارت کا دیرینہ خواب ہے کہ وہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کا چودھری بن جائے۔اس مقصد کے حصول میں ا±سے امریکہ اپنا فطری اتحادی نظر آتا ہے۔ بھارت اپنی عسکری قوت بڑھانے کے لیے امریکہ سے گزشتہ تیرہ برسوں میں سترہ ارب ڈالر کاجدید اسلحہ خرید چکا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ دورے میں تین ارب ڈالر کے مزید سودے ہوئے جن میں جدید ترین ہیلی کاپٹر سی ہاک (24ایم ایچ۔ 60آر) شامل ہیں۔ اگلے پانچ برسوں میں بھارت امریکہ سے دس ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنا چاہتا ہے۔پہلے بھارت زیادہ تر اسلحہ روس سے خریدتا تھا لیکن اب بتدریج امریکہ کا حصّہ بڑھاتا جارہا ہے۔ٹرمپ کی خواہش ہے کہ بھارت زیادہ تر فوجی سامان امریکہ سے خریدے نہ کہ روس سے۔ امریکی محکمہ دفاع نے کانگریس سے درخواست کی ہوئی ہے کہ وہ بھارت کوجدید میزائیل دفاعی نظام فروخت کرنے کی اجازت دے۔امریکی صدر بھارت کو امریکی ڈرون بیچنے کی پیش کش بھی کرچکے ہیں۔امریکہ بھارت کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے کلب میں شامل کرچکا ہے اور اسے نیوکلئیر ٹیکنالوجی منتقل کررہا ہے جبکہ پاکستان کو امریکہ نے یہ ٹیکنالوجی دینے سے صاف منع کردیا تھا۔ واشنگٹن اور دلّی کے خارجہ اور دفاع کے وزرا ء کے درمیان ہر سال باقاعدہ مذاکرات کیے جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی شراکت کے معاہدے بھی ہوچکے ہیں جن کے تحت امریکی بحری بیڑے اور جہاز بھارت کی بندرگاہوں میں لنگر انداز ہو کر وہاںمختلف سہولتوں سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ انٹیلی جنس کے تبادلہ کامعاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ بھارت‘ امریکہ اور جاپان کے بحری جہاز بحیرہ جنوبی چین میں مشترکہ گشت کرتے ہیں۔ گزشتہ سال امریکہ اور بھارت کی تینوں افواج کی مشترکہ مشقوں کا انعقاد کیا گیا جس کا نام ’چیتے کی فتح‘ (ٹائگر ٹرائمف) رکھا گیا۔ اب یہ مشقیں ہر سال کی جائیں گی۔ درحقیقت بھارت اور امریکہ کے روز بروز بڑھتے ہوئے عسکری اور تزویراتی تعلقات پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ بھارت کو جدید ترین امریکی اسلحہ کی فراہمی سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن درہم برہم ہوجائے گا۔چین مخالف اتحادی کی حیثیت سے بھارت امریکہ سے جو اسلحہ حاصل کررہا ہے اس کا اصل مقصد جنوبی ایشیا میں اپنی برتری اور غلبہ قائم کرنا ہے۔ یہ اسلحہ چین نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف استعمال ہوگا۔ ان بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کواپنے دفاع کی نئی حکمت عملی بنانی ہوگی‘ بھارت کی مکار اور شیطانی اشرافیہ کی چالوں کو ناکام بنانا ہوگا۔
٭٭٭