عمران خان جانوروں کے وزیراعظم بن گئے ہیں

0
119
حیدر علی
حیدر علی

حیدر علی

ملاحظہ کیجئے پاکستان کے اخبارات کی تصویروںکی، وزیراعظم عمران خان لیہ میں ” احساس آمدن “
پروگرام کے تحت لوگوں میں بھینس تقسیم کر رہے ہیں، اِس سے چند ماہ قبل اُن کی تصویریں بکریاں تقسیم کرتے ہوے شائع ہوئی تھیں اور پھر مرغیاں تقسیم کرنے کا دھوم دھام ، غل غپاڑہ کسی کے ذہن سے محو نہیں ہوا ہے، جگہ با جگہ پاکستان میں پانچ مرغیاں اور ایک مرغ مفت تقسیم کئے جارہے تھے اور بس ایسا معلوم ہورہا تھا کہ پاکستان کا شمار مرغیوں کے ملک سے ہونے لگے گا اور عمران خان جانوروں کے وزیراعظم کے لقب سے پہچانے جانے لگیں گے، کسی بھی دوسرے ملک کا سربراہ ، تیسرے ملک کے سربراہ کو وزیراعظم عمران خان کے بارے میں ذکر کرتے ہوے یہی کہے گا کہ ” ہاں وہ جو جانور کا وزیراعظم ہے، اُس سے بھی آپ مشورہ لے لیجئے،“ قطع نظر جانوروں کے تقسیم ہونے کی تقریبات کے ، حقیقت میں وزیراعظم عمران خان کو جانوروں سے والہانہ محبت ہے اور اُن کی آرزو ہے کہ پاکستان میں انسانوں سے زیادہ جانوروں کی تعداد موجود ہو، وہ جب بھی گاڑی سے کہیں کا سفر کر رہے ہوں تو جانوروں کا قافلہ در قافلہ گذرتا ہوا نظر آئے عمران خان کے پرانے شناسا کا کہنا ہے کہ اُنہیں بچپن سے ہی جانور پالنے کا شوق تھا اور وہ اُنہیں بکریاں چراتے ہوے دیکھا کرتا تھا کتے تو خیر اُن کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے، اور بال کو اپنے منھ میں دبوچ کر دور دراز علاقہ سے لاکر اُنہیں دیا کرتے تھے ایک شناسا کا تو کہنا ہے کہ ایک مرتبہ وہ عمران خان کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اُنہوں نے سمجھا تھا کہ عمران خان اسکارف پہنے ہوے ہیں، لیکن وہ اسکارف نہیں ، بلکہ اژدہا سانپ تھا، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے عمران خان کو گدھے پر سوار ہوکر اسکول جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے،اسکول کی ایک تقریب میں عمران خان بندر کے ساتھ مداری کا ایک تماشا بھی پیش کیا تھا، جسے کافی پسند کیا گیا۔
ایک عام فہم یہ ہے کہ جانوروں کے تقسیم کرنے کا پروگرام شروع ہوتا ہے اور لوگ جانوروں کو ذبح کر کے کھا جاتے ہیں، اور سارے پروگرام پر پانی پھر جاتا ہے جانوروں کے وزیراعظم کو پنسل اور نوٹ بُک میں اُن تمام لوگوں کے نام و پتہ کو درج کرنا چاہیے جنہوں نے مرغیاں، بکریاں اور بھینس وصول کی ہیں اُن کے مکمل کوائف کا بھی اندراج ہونا چاہیے کہ جانوروں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے، اور کتنے درجن انڈے ریفریجریٹر میں بند ہیں، کتنے کلو دودھ سے مکھن یا پنیر بنائی گئیں ہیں، یا جانوروں کے اتا پتا کا مکمل صفایا ہوچکا ہے، تو اِس کی وجوہات بھی قابل دریافت کی لائق ہیں کیونکہ پاکستان میںعموما” مرغیاں چوری ہوجاتی ہیں اِسلئے جانوروں کو محفوظ رکھنے کیلئے ایک ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے ، ورنہ اُنکی افزائش نسل محض ایک خواب بن کر رہ جائیگا۔
یہ اور بات ہے کہ جانوروں کے وزیراعظم کی کابینہ میٹنگ میں اِن دنوں اکثر و بیشتر جانوروں کے اوپر بحث و مباحثہ ہوتا ہے، اور اُن کے فلاح و بہبود کیلئے تجویزیں پیش کی جاتیں ہیں کیونکہ سارے وزراءجانتے ہیں کہ اُن کے باس کیلئے یہ ایک اہم اور سب سے زیادہ دلچسپ موضوع ہے مرکزی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی مقبول احمد صدیقی کابینہ کی ایک میٹنگ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ بھارت میں غذائی قلت کے باعث وہاں سے بہت سارے جانور ہجرت کر پاکستان آرہے ہیں، لہذا کابینہ اُن کے قیام و طعام کیلئے ایک اچھی خاصی رقم مختص کرے دوسرے وزراءکے استفسار پر مقبول احمد صدیقی نے جواب دیا کہ جو جانور بھارت سے آرہے ہیں اُن میں لومڑی اور بھیڑئیے پیش پیش ہیں کابینہ کے دوسرے
تمام وزراءنے یک زبان ہو کر کہا کہ لومڑی اور بھیڑئیے کیلئے کوئی رقم مختص نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ یہ جانور دوسرے بہت سارے جانور وں کو ، خصوصی طور پر فینسی کتوں پر حملہ کرکے اُنہیں ہلاک کردیتے ہیں جانوروں کے وزیراعظم نے مداخلت کرتے ہوے کہا کہ اُن کے کتے پر بھی ایک بھیڑئیے نے حملہ کردیا تھا ، جسے اُنہوں نے ایک لات مار کر ڈھیر کردیا تھا،جانوروں کے وزیراعظم نے کابینہ کے وزراءکو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو یہ حکم دے دینگے کہ پاکستان فوج کے جوان بھارت سے آنے والے کسی بھی لومڑی یا بھیرئیے کو دیکھتے ہی گولی مارکر ہلاک کردیںیکن جانوروں کے وزیراعظم کے ہاتھوں تقسیم ہونے والے جانوروں کی کہانی بھی کچھ مضحکہ خیز ہے سوات کے میر اعظم خان نے شکایت کی ہے کہ اُنہیں ملنے والا مرغا بانجھ تھا جس کی وجہ کر اُسکی مرغیاں انڈا دینے کے قابل نہ ہوسکیں، اور وہ محض اپنے وقت اور اپنے پیسے کو اُن پر برباد کر رہا ہے۔
لیہ کی سکینہ بی بی نے الزام عائد کیا ہے کہ اُنہیں ملنے والی بھینس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے اور وہ اُسے چرانے کیلئے سبزہ زار نہیں لے جاسکتی ہےاُس نے مطالبہ کیا ہے کہ آیا اُسے دوسری بھینس دی جائے یانہیں تو بھینس پر کئے جانے والے سارے اخراجات اُسے واپس کئے جائیںلیکن کراچی کے شاعر آتش الہ آبادی کو جو مفت بکری اُنہیں ملی تھی وہ اُس سے دودھ دوہنے کے بجائے اُسے اپنا تازہ ترین کلام سنانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں اُنہوں نے کہا کہ وہ صرف چائے بنانے کیلئے بکری کا دودھ استعمال کرتے ہیں، دودھ فروخت کرکے گھر کے آمدن میں اضافہ کرنا تو دور کی بات ہے وہ جانوروں کے وزیراعظم عمران خان کے بہت مشکور ہیں کہ اُنہوں نے اُنہیں ایک بکری دے کر اُنہیں اُن کے دِل کے بہلانے کا سامان فراہم کردیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here