جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
عید الفطر آئی اور خاموشی سے گزر بھی گئی، میں اپنے لڑکپن سے پیری (ابھی میں جوان ہوں لفظ پیری تسلسل ہے) تک کے ادوار کی عیدوں پر پاکستان میں اور یہاں امریکہ میں پچھلے چالیس سالوں کی عید کی رونقوں پر نظر ڈالتا ہوں اور اس سال کی عید کا موازنہ کرتا ہوں تو یہ احساس یقین میں بدل جاتا ہے کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے کورونا کی صورت میں رب کائنات نے ہمیں تنبیہہ دی ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری نافرمانیوں اور بد اعمالیوں کے باعث اللہ رب العزت کی جانب سے متعینہ ماہ مقدس رمضان المبارک اور مسلمانوں کے اہم ترین خوشیوں کے تہوار عیدین کے فیوض و برکات اور مسرتوں کا حصول بھی دشوار بلکہ دُشوار ترین ہو گیا ہے۔ اس سال کرونا کی ہلاکت خیزیوں کے باعث رمضان کریم کی برکتیں اور عید کی ہنگامہ خیز خوشیاں محض ایک خیال خام ہی ثابت ہوئیں۔ حرمین شریفین سے لے کر یہاں شکاگو تک دنیا بھر میں سماجی فاصلے، احتیاطی تدابیر اور وباءکی خطرناکیوں نے اُمہ کی عبادات کو گھروں تک یا بعض جگہوں پر مختصر تعداد تک ہی محدود نہیں کیا، چاند رات کی گہما گہمیوں اور عید کی مسرتوں کو بھی گہنا دیا۔ شکاگو کا دیوان ایونیو امریکہ میں دیسیوں کا سب سے بڑا کاروباری مرکز شمار ہوتا ہے۔ چاند کا اعلان ہوتے ہی چاند رات کا ہنگامہ عروج پر ہوتا ہے۔ الی نائے سے ہی نہیں، قریبی ریاستوں سے بھی مسلم اُمہ چاند رات کی رونقیں بڑھانے اور عید کی حتمی تیاریوں کیلئے دیوان ایونیو پہنچتی ۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد خوش گپیوں، نعرہ بازیوں، ہلا گُلا اور انتظامی اہلکاروں سے چھیڑ چھاڑ و آنکھ مچولی میں مصروف رہی ، لوگوں کے اپنے افراد، خاندان کےساتھ خریداری میں مصروف رہے ،ریسٹورنٹس ، سٹالز ، بیوٹی پارلرز اور بوتیکس پر عید کی فائنل تیاریوں کا رش رہا، کہیں مہندی لگ رہی ہے تو کوئی چوڑیاں پہننے اور جیولری کیلئے بے چین دکھائی دیا، غرض ہر طرف رونقیں اور خوشیاں ہی بکھری ہوتی تھیں۔
اس سال چاند رات پر دیوان ایونیو ایک سنسان، بیابان کا منظر پیش کر رہا تھا۔ دیوان پر انتظامی اہلکار تو نظر آرہے تھے لیکن دیوان کی رونقیں اور روشنیاں معدوم تھیں۔ دوکانیں اور اسٹورز بند تھے، ہر جانب سناٹے کا راج، ہُو کا عالم تھا۔ نہ کوئی مہندی لگوا رہا تھا نہ نوجوانوں کا ہلہ گلا تھا۔ ریسٹورنٹس بند تھے، صرف کیری آﺅٹ تک محدود تھے، پارلرز، بوتیک بند تھے۔ شہرت کے حامل کاروبار بند تھے، غرض غالب کے بقول کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔ دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا جیسا حال تھا۔ عید کا روز بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ ریاست کی تقریباً تمام مساجد اور وہ مقامات جہاں نماز عید کا اہتمام ہوا کرتا تھا سنسان تھے۔ حالات کے تناظر میں لوگوں کو گھروں میں ہی نماز کی ادائیگی کا کہا گیا تھا، البتہ دو ایک جگہوں پر بعض مولوی حضرات نے ٹکڑیوں میں نماز کا اہتمام کیا۔ ہماری زندگی میں یہ پہلی عید تھی جبکہ افراد خاندان، رشتہ دار، احباب نہ ایک دوسرے سے گلے ملے، نہ ہاتھ ملائے اور نہ ہی ملاقات کیلئے ایک دوسرے کے گھر گئے۔
یہ صورتحال محض الی نائے تک ہی محدود نہیں تھی، امریکہ بھر میں بلکہ ساری دنیا میں کم و بیش یکساں تھی۔ پاکستان میں البتہ کپتان کی حکومت نے لاک ڈاﺅن میں نرمی کرتے ہوئے بازار بھی کھولے اور مساجد میں نماز عید کی (ضابطوں و احتیاط کی پابندیاں کی پاسداری کی شرط پر) اجازت دی لیکن اس کا نتیجہ ہوا کہ رمضان کے آخری دنوں اور عید کے روز وبا کے متاثرین اور ہلاک شدگان کی تعداد میں اضافے نے عید کی خوشی کو غم میں تبدیل کر دیا، وجہ اس کی ہمارے عوام کی لاپرواہی، احتیاط کو خاطر میں نہ لانا، خصوصاً بازاروں میں چھوٹے بچوں سمیت خریداری تھا۔ اس بد احتیاطی اور لاپرواہی کا سب سے زیادہ اثر کراچی پر ہوا۔ عید کے روز 24 گھنٹوں میں اموات کی تعداد کی شرح چوبیس فیصد سے زیادہ تھی جو اوسطاً 13 فیصد سے بہت زیادہ ہوئی۔ بچوں کی متاثرہ تعداد بھی بڑھ چکی ہے۔ دُکھ کی بات ہے کہ لوگوں کو نہ صرف اپنے بلکہ اپنے بچوں کے تحفظ کا بھی کوئی احساس نہیں ہے۔ بے حسی کا یہ مظاہرہ نہ صرف عید کی مسرتوں کو دھندلانے کا سبب بنا ہے بلکہ ہمارے قومی مزاج اور ہٹ دھرمی کو بھی ظاہر کرتا ہے گزشتہ ہفتے اسی ہٹ دھرمی کا ایک مظاہرہ ہزارہ موٹر وے پر خود کو کرنل کی بیوی قرار دینے والی ایک خاتون نے بھی کیا۔ جس کی تفصیل قارئین کے علم میں سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرونک کے توسط سے یقیناً آچکی ہے یہ ہٹ دھرمی بھی ہمارے قومی اور معاشرتی مزاج کی عکاس ہے۔ یہ فطرت یا دیدہ دلیری اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اس کا اظہار محض کسی ایک کلاس، طبقہ، شعبہ یا گروہ تک محدود نہیں ہے۔ سیاستدان منتخب اراکین، حکومتی ریاستی، انتظامی اعمال، کاروباری اشرافیہ، میڈیا کے لوگ حتیٰ کہ عام لوگ بھی قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں لمحہ نہیں لگاتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ کہ ہمارا سوشل میڈیا ایسے انفرادی واقعات کو بنیاد بناتے ہوئے متعلقہ شعبہ یا طبقہ کےخلاف نفرت انگیزی کا زہر پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ متذکرہ واقعہ کو بنیادبناتے ہوئے بعض ملک دشمن اور دشمن ملک کے پٹھوﺅں نے عسکری اشرافیہ و قیادت کےخلاف زہر افشانی کا رول ادا کیا ہے، وہ خطہ کی موجودہ صورتحال میں خصوصاً اور ملک میں کرونا سے نپٹنے میں مصروف عسکری قیادت کا مورال گرانے کا ناپاک ر ویہ ہے جو کسی بھی طرح وطن دوستی نہیں بلکہ ہمارے عزم استقامت و استحکام کےخلاف دشمن کی دوستی سے عبارت ہے، ان وطن دشمنوں کا یہ رویہ جہاں ایک طرف ہماری قابل احترام و پُرعزم عسکری اشرافیہ کےخلاف سازش ہے بلکہ قومی وحدت کو گہنانے کا باعث ہو سکتا ہے ،وہیں دشمن قوتوں کو ہمارے خلاف پروپیگنڈے کا موقع بھی دیتا ہے جہاں تک اس واقعہ کا تعلق ہے، آرمی چیف کا اس پر فوری نوٹس اور کارروائی کا اقدام ہماری عسکری قیادت کے وقار اور ان ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو معدوم بنانے کیلئے کافی ہے۔
معدومیت کے حوالے سے تو جمعة الوداع کو پی آئی اے کے طیارے کے حادثے نے نہ صرف 95 خاندانوں کی بلکہ ساری قوم کی عید کی مسرتوں کو معدوم کر دیا ہے۔ اس المناک حادثے کی وجوہات و حقائق کیلئے تو تحقیقات شروع ہو گئی ہیں لیکن جن کے پیارے جان سے گزر گئے ہیں ان کا غم زندگی بھر کیلئے تقدیر بن گیا ہے۔ اللہ رب العزت ان شہیدوں کو اعلیٰ مدارج عطاءفرمائے۔
ہمارے قومی مزاج کا اندازہ اس سے لگائیں کہ طیارہ حادثے پر بھی سیاسی مباحث جاری ہیں۔ اپوزیشن کے رہنما، میڈیا چینلز پر بیٹھ کر اس غیر متوقع حادثے پر حکومت کو بالکل اسی طرح مطعون کر رہے ہیں جس طرح وہ کرونا کے معاملات، شوگر، پی پی آئی اور اٹھارہویں ترمیم پر اپنا وطیرہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکومتی نمائندے بھی ترکی بہ ترکی بحثوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ ہی شور قیامت برپا ہے یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت کوئی نہیں پاتا کہ قدرتی حادثاتی واقعات میں ہمارا معاشرتی فریضہ کیا ہے بس اپنی بڑائی اور فوقیت کیلئے وہ کیا جاتا ہے جو مذہبی، قومی و اخلاقی حدود سے کسی بھی طرح مماثل نہیں ہوتا۔ یہ عید تو گزر ہی گئی لیکن کیا جو حالات اس عید پر رہے ،وہ ہمارے لئے اس سوچ کے مظہر نہیں کہ ہم انفرادی و معاشرتی طور سے مثبت رویوں اور عمل کی جانب توجہ دیں، ایسا نہ ہو کہ عیدین سمیت ہماری تمام خوشیوں کے رنگ پھیکے پڑ جائیں۔
٭٭٭