مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں !!!
ہم نے اپنے گزشتہ کالم کے اختتام پر دست بستہ یہ عرض کیا تھا کہ عوام اور فوج کے درمیان اتحاد وطن کی سالمیت کی ضمانت ہے اور وطن کے محافظوں سے درخواست کی ”خدارا پاکستان کو بچائو” ہماری یہ عرضداشت 9 مئی کو ہونیوالی اس تباہی کے تناظر میں تھی جس میں قومی وقار و عظمت کی حامل یادگاروں، تنصیبات و شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کیساتھ عوامی خدمت کے وسائل کی تباہی اور عوام کے نقصانات سے پورا ملک متاثر ہوا تھا، ہمارا یقین ہے کہ کوئی بھی سچا پاکستانی بابائے قوم کی یادگاروں، پاکستان کی کامیابی کے مظاہر اور وطن کی خاطر جان نچھاور کرنیوالے شہداء کی تحقیر کا تصور بھی ذہن میں نہیں لا سکتا جس سے ہمارے دشمن کو تمسخر اُڑانے کا موقع مل سکے کہ ہر پاکستانی کا ایمان اس شعر کی تفسیر ہے، ”اپنی مٹی کا گنہگار نہیں ہو سکتا، مر تو سکتا ہوں میں غدار نہیں ہو سکتا”۔ عمران خان کی غیر قانونی و غیر انسانی گرفتاری پر پاکستانی عوام کا رد عمل اور احتجاج ایک فطری امر تھا کہ وہ اس وقت 23 کروڑ پاکستانیوں کا محبوب ترین لیڈر ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس وطن کا کوئی بھی فرد حتیٰ کہ بچہ بھی اپنے قومی، معاشرتی اور قابل فخر اثاثوں اور یادگاروں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا کہ حب الوطنی ہماری رگوں میں ماں کے پیار کی مانند بسی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوامی احتجاج کی آڑ میں ہونیوالی اس دشمنانہ سازش و کارروائی کے اصل محرکین وطن دشمنوں کی قطعی شناخت اور پکڑ کر کے انہیں نشانۂ عبرت بنایا جا تا لیکن سیاسی منافرت و اداروں میں تقسیم کے حامل حکومتی نوسر بازوں نے پی ٹی آئی اور حق و سچ کہنے والے صحافیوں، تجزیہ کاروں پر اس کا ملبہ ڈال کر گرفتاریوں، اُٹھائے جانے اور ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے، پی ٹی آئی کی ساری قیادت سمیت ہزاروں مرد و خواتین حتیٰ کہ بچوں کو گرفتار کر لیا ہے، درجنوں صحافیوں، تجزیہ کاروں کو اُٹھا لیا گیا ہے۔ آفتاب اقبال، عمران ریاض خان اور اوریا مقبول جان کی گرفتاریاں اس کی بدترین مثال ہیں۔ آفتاب اقبال اور اوریا مقبول جان تو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے حکم پر واپس آگئے لیکن عمران ریاض تا دم تحریر نامعلوم مجاہدوں کے نرغے میں اور تشدد جھیل رہا ہے، چیف جسٹس لاہور نے حکم دیا ہے کہ 18 مئی کو انہیں بازیاب کرا کے عدالت میں پیش کیا جائے۔ معاملہ عمران ریاض تک ہی محدود نہیں، پی ٹی آئی کی قیادت بھی گرفتاری کے بعد ظلم و ستم کے انہی مراحل سے گزر رہی ہے۔ کینسر سروائیور ڈاکٹر یاسیمین راشد گرفتاری کے بعد اس وقت آکسیجن پر ہیں، اُدھر فواد چوہدری کی چار سالہ بچی کی چینلز پر معصومانہ آہ و بکا نے ہر آنکھ نمناک کر دی ہے۔ منافرت، غرض اور تقسیم کی آگ لگانے والے حکمرانوں کے پیش نظر اس وقت صرف ایک ہی ٹارگٹ ہے کہ وہ کسی بھی طرح عمران خان کو سیاست کے کھیل سے باہر کر دیں، اس مقصد کیلئے وہ ہر حد سے گزرنے کیلئے تیار ہیں جس سے ان کے مقصد کا حصول یقینی ہو۔ انہیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ ان کے اس شیطانی روئیے سے ملک اور قوم کا کیا حال ہوگا اور عالمی منظر میں اس کے کس قدر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ اپنے اس منکرانہ کھیل میں انہوں نے نہ صرف ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی تحقیر کا بیڑہ اُٹھایا ہوا ہے بلکہ عوام کے درمیان بھی ایسی فضاء بنا دی ہے جو انتشار، نفرت اور محاذ آرائی کا سبب ہو۔ عمران اور انتخاب سے خوفزدہ حکومتی ٹولے نے اپنے ملک و عوام مخالف ، روئیے، 14 مئی کو عدالت عظمیٰ کے پنجاب میں انتخابات کے حکم کی حکم عدولی پر نا اہلی و سزائوں سے بچنے کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف جس دھرنے کا اہتمام کیا، اس میں فضل الرحمن اور مریم نواز نے جو دھمکی آمیز اور چیف جسٹس کی فیملی کیخلاف جس طرح کی زبان استعمال کی جو ہذیان بکا ہے وہ اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ حکومتی شیطان ذہنی و اخلاقی پستگی کی کس حد تک گِر چکے ہیں اور عمران دشمنی میں انہیں یہ پرواہ نہیں کہ ان کے یہ روئیے اقدامات اور عوام کی عمران سے بے پناہ محبت، عقیدت اور جاں نثاری کے باعث محاذ آرائی کی نوبت اس صورت کو پہنچ جائیگی جہاں حالات کسی کے بھی قابو میں نہیں رہیں گے۔ دوسری جانب کور کمانڈرز کانفرنس میں اس مؤقف کا اظہار کہ 9 مئی کو سیاسی جماعت (پی ٹی آئی کی طرف اشارہ) کے بیانئے اُکسانے کی وجہ سے قومی و فوجی تنصیبات و عوامی مقامات پر حملے، گھیرائو جلائو ایک منصوبے کے تحت کرائے گئے کہ فوج اور عوام کے درمیان نفرت کی خلیج پیدا کی جائے۔ا س امر کا بھی اظہار کیا گیا کہ ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ اور سیکرٹ سروس ایکٹ کے تحت کٹھہرے میں لایا جائیگا۔ حالیہ تناظر میں حکومت اور ادارے اس حوالے سے پی ٹی آئی کے عہدیداروں، کارکنوں کو اس واقع کے ذمہ دار، علمدار و سہولت کار قرار دیکر گرفتار کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے لوگوں سمیت میڈیا کے لوگوں کیخلاف ایم پی او کے تحت فوجداری مقدمات بنا کے انہیں گرفتار ہی نہیں غائب بھی کیا جا رہا ہے، تو ایسی صورتحال میں کور کمانڈرز کے فیصلے کے تناظر میں بجلی گرائی جانے کی صورت نظر آرہی ہے۔ عمران خان نے نہ تو واضح اظہار کر دیا ہے کہ یہ سب انہیں گرفتار کر کے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں ہماری تشویش ملک میں مزید بد امنی، بدترین محاذ آرائی، نفرت اور خانہ جنگی کے حوالے سے ہے۔ مقتدر شہرت یافتہ شاعر مدّبر و پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر عبید الہ علیم نے 5 عشرے قبل عوامی تحریک کے حوالے سے نظم کہی تھی۔ میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں۔ میرے شہر جل ہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں، ہمیں خوف ہے کہ ایسے ہی حالات وطن عزیز و قوم کو آج بھی درپیش ہیں جو نفرت کی آگ کے شعلوں کو بتدریج ہوا دے رہے ہیں۔ عبید اللہ علیم کی نظم کے ناطے اس آگ میں میرے شہر بھی جل رہے ہیں اور میرے لوگ بھی مر رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ نظم کا آخری شعر موجودہ حالات کی اس انتہاء کو پہنچ جائے جہاں ہمیں یہ کہنا پڑے کہ!
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے وطن و عوام پر کرم کامعاملہ فرمائے اور ذمہ داروں، فیصلہ سازوں کو وقت کی نزاکت کا احساس و عقل سلیم عطاء فرمائے۔ آمین۔ لوگوں کا یہ مؤقف ہے کہ ملک خداداد کی حفاظت اوپر والا کر رہا ہے اسے کچھ نہیں ہوگا۔ ہم اس مؤقف و یقین سے انکاری نہیں لیکن کیاایسے ہی حالات کے باعث 1971ء میں ہمارا پیارا وطن دو لخت نہیں ہوا تھا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔ ہر پاکستانی اس حقیقت کو سمجھے تو شاید نجات کی راہ نکل سکے۔
٭٭٭