کرونا میں پرانے شہر کی سیر!!!

0
220
سردار محمد نصراللہ

سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! گھر میں بیٹھ کر گھر کو ترس رہا ہوں، کرونا نے احساس دلایا کہ پاکستان میرا ملک ہے اور امریکہ میرا گھر ہے جہاں میرے پیارے بستے ہیں جن میں دوست احباب شامل ہیں۔ جو میری غمی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان میری مٹی ہے جس نے مجھے پیدا کیا جوان کیا، جہاں میرے بہن بھائی آباد تو ہیں لیکن اتنے دور کہ ان کے بچوں کے بچے مجھے پہچانتے بھی نہیں ہیں جہاں میں خوشی خوشی آتا ضرور ہوں کہ اپنے دادا بانی¿ اخبار وطن پہلو میں دفن اپنی دادی بے بی جی، اور ساتھ میں دفن اپنے والد سردار ظفر اللہ اور والدہ عقیلہ ظفر اللہ کو سلام کرنے آتا ہوں۔ اس مٹی پر کئی رشتہ دار بستے تھے جو اب مٹی ہوگئے ہیں ،یاد ماضی کا حصہ بن گئے ہیں اور اس بار تو کورونا نے کمال کر ہی کر دیا ہے کہ مین روڈ پر اپنے ہی گھر میں ہاﺅس اریسٹ ہو کر رہ گیا ہوں۔ اور ایسا لگتا ہے جیسے میں کوئی انقلابی لیڈر ہوں جسے انگریز بہادر نے ہاﺅس اریسٹ کیا ہوا ہے لیکن جب دائیں بائیں نظر پڑتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ پورا ملک کورونا بادشاہ نے قید کیا ہوا ہے سڑکیں ہُو کا عالم پیش کر رہی ہیں۔ میرے ساتھ میری چھوٹی بہن تہمینہ ظفر بیماری کی حالت میں میری کزن اور کسٹوڈین رضیہ سلطانہ اور ذاتی ملازم شاہد وٹو قید ہیں جو ایک شکستی کا تصور پیش کرتا ہے اللہ اس کو سلامتی دے اور جوان کرے کہ اس نے مجھے، میری بہن، کسٹودین ا ور پورے گھر کو سنبھالا ہوا ہے اور ساتھ ساتھ کوروناک ی زنجیریں کاٹ کر شام کو میری خیریت دریافت کرنے کیلئے آنےو الے دوستوں جن میں امریکہ سے آئے اور کرونا کی اسیری میں گرفتار نواب زادہ، میاں ذاکر نسیم، گوہر علی خان، توصیف الرحمن بھٹی ایڈووکیٹ اور میرے سب سے پیارے بھانجے میں سلمان لالیکا جن کا لیول اب دوستوں میں شمار ہوتا ہے کی خدمت کرنا۔
قارئین وطن! اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے گھر کی یاد بہت شدت سے آرہی ہے کہ اب میرا سب کچھ نیویارک میں ہے یہاں تو اب صرف چند تصویر چسپاں ہیں چند تو کیا ایک ایک آدھا کسی حسینہ کا خط بھی نہیں ہے نیویارک میں میرا بیٹا اسد اللہ ہے میرے پوتے ہیں میری بہو ہے اور ان کی دادی ہے میری جانو ہے میرے شور ڈالنے و الے دوست مہر مزمل، میاں وحید، ثمر جیلانی، شعیب شیخ، زاہد چودھری، شیخ پرویز اقبال، مسعود انصاری سبھی وقت قمر بشیر، رئیس شہر میاں بل گیٹ جو میرا باقاعدگی کےساتھ حال تو پوچھتے ہیں لیکن میں ان کا شو مس کر رہا ہوں اس شو نے گھر اور ملک کا فرق بتایا ہے جس ملک کی سیاست کو اپنا شعار سمجھا تھا وہاں اب ہر شاخ پر اُلّو بیٹھا ہے۔ نظریاتی سیاست کا فقدان ہے، صحافت اور صحافی سیاسی، یا عوامی اوپینین میکر نہیں رہا وہ تاجرہے اور اس کےساتھ ساتھ بادشاہ گر ہے اب یہ اس کا دوست ہے جس کے پاس ذلت کے انبار ہیں یا کسی ادارے کی بیکنگ یہ دوست ہیں تو مافیا کے اور ڈرتے ہیں تو مافیا سے۔ انہوں نے جھوٹے ڈنڈے مار مار کر عمران خان نیازی کی حکومت کو زیرو کر دیا ہے ایک اینکر تو اتنا منہ زور ہو گیا ہے کہ کوئی محمد مالک نامی جو وزیراعظم کے گریبان تک پہنچ گیا ،اب ایسے ماحول میں سردار نصر اللہ کیسے سیاست کر سکتا ہے جس کی بیک پر نہ تو کوئی ادارہ ہے نہ کوئی مافیا اور نہ ہی دولت، لہٰذا بہتر نہیں ہے کہ عزت سادات کو انا کے دامن میں بچائے رکھو۔ بس اس انتظار میں ہوں کہ اللہ کے بلاوے سے پہلے ٹرکش ایئر لائن کا بلاوہ آجائے اور میں اپنے گھر والوں میں شامل ہو جاﺅں کہ پاکستانی ٹاک شوز پر بیٹھے ہوئے اینکرز زبردستی کا کرونا نہ کروا دیں۔
قارئین وطن! آج تقریباً دو سے تین ہفتہ ہو چکے ہیں کہ میں قید تنہائی میں پڑا ہوا ہوں اور اس سے پہلے کہ میں ڈپریشن میں چلا جاتا توصیف بھٹی صاحب کو اللہ نے تنہائی کی دیوار گرانے والا مسیحا بنا کر بھیجا اور انہوں نے کہا کہ آپ کو ہائیکورٹ لے چلتا ہوں۔ پہلے تو میں نے مغفرت کی کہ آج چھٹی ہے کوئی نہیں ہوگا لیکن وہ مصر ہوئے تو میں ان کےساتھ چل پڑا اور کرونا کی زنجیریں کاٹنے کا فیصلہ کیا کہ اب جو ہونا ہے ہوتا رہے ویسے بھی آئیسولیشن میں پڑا ہوا ہوں بھٹی صاحب کے پتہ نہیں دل میں کیا آئی کہ وہ ہائیکورٹ کے بجائے حضرت داتا گنج بخشؒ کے دربار کی طرف چل دیئے۔ امل روڈ سے انارکلی اردو بازار بند تھا۔ سوائے اُکا دُکا فقیروں نے ہزاروں کی تعداد میں چلتا پھرتا ہجوم اور بیک وقت دعا کیلئے اٹھنے والے ہاتھوں کو نہ دیکھ کر ایسا لگا کہ حضور کی زیارت کو آنے والے بھی کرونا کی زد سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کیلئے دُبک گئے ہیں۔ فاتحہ کے بعد بھٹی صاحب لیڈی ولینگٹن ہسپتال سے نئی فوڈ اسٹریٹ دکھانے کے بعد ٹکسالی گیٹ سے ہجرہ استاد دامن کے سامنے سے گزرے تو میرا دل چاہاکہ ایک تصویر کبھی مری جانا تے کدی شملہ جانا اے!کے ساتھ بنواﺅں۔ اس کے بعد ہیرا منڈی سنسان آبادی کی طرف سئے جہاں کبھی ابا بیلوں کا مسکن ہوا کرتا تھا اور اس کوٹھوں سے کیا سُریلی آوازیں، طبلہ، سارنگی اور ہارمونیم کے سُروں کےساتھ کانوں میں رس گھولتی رہتی تھیں ان ٹوٹے ہوئے کوٹھوں کو دیکھ کر لاہور کی اُداسی پر رونا آیا کہ منچلے نوجوانوں سے لے کر بڑے بوڑھے حسین گلوں میں ہار پہنایا کرتے تھے وہاں سے نکلے تو بازار حکیماں کی جانب جہاں کبھی میرے مرشد علامہ اقبال قیام کیا کرتے تھے ایک روز میرے دادا حضور مولوی انشاءاللہ علامہ صاحب سے ملنے گئے تو ان کے پاس بازار حسن کی کچھ حسینائیں بیٹھی تھیں ،مولوی صاحب واپس جانے لگے تو مُرشد نے آواز دی مولوی صاحب اندر آجائیں یہ وطن کی بہنیں ہیں، اخبار وطن کے حوالے سے یہ علامہ صاحب کا جملہ بڑا مشہور ہوا۔ اس کے بعد لوہاری دروازہ سے ہوتے ہوئے بھٹی صاحب گھر پہنچے تو نواب زادہ ذاکر نسیم اور گریٹر صاحب انتظار کر رہے تھے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here