سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! الحمد اللہ آج لاہور اپنے آبائی شہر میں بیٹھ کر پہلا کالم لکھ رہا ہوں ابھی تک بٹ لیگ کے تھیٹروں کی زد میں ہوں کہ صرف چار دن ہوتے ہیں اپنے بزرگوں کے شہر میں اُترے اللہ کا فضل ہے صبح آنکھ کھلتی ہے پانچ چھ مو¿ذنوں کی اذان کی آواز سے اور پھر مرغ سحر کی بانگ کا اپنا ہی مزہ ہے۔ نہ جانے شیر کی آواز کو کیا ہو گیا ایک شیر تو لندن علاج کے بہانے بھاگ گیا کہ وہ تو کاغذی تھا لیکن اصل شیر کی دھاڑ تو صبح سویرے پورا لاہور سنتا تھا جبکہ میرا گھر تو اس کے پنجرے سے دو تین فرلانگ پر ہے اب اس کی آواز نہیں آتی اس کی وجہ لاہور کی بڑھتی ہوئی ٹریفک کا شور، یا وزیراعظم پر چلتی ہمارے لفافہ صحافیوں اور اینکروں کی گولیوں کی بوچھاڑ، وہ علی الصبح ہی اس کی حکومت ختم ہونے کی نوید کے شور کی وجہ، خیر یہ سب امور سیاست کے کرتب ہیں حکومتیں بنتی ہی ٹوٹنے کیلئے اور وطن عزیز میں کب کوئی حکومت پائیدار ہوتی ہے
قارئین وطن! ہر وطن کے اپنے میکرو اور مائیکرو اکنامکس کے مسائل ہوتے ہیں پاکستان بھی ان میں ہے لیکن جہاں رہتا ہوں وہ منبر لاہور کے وسط میں رہتا ہوں، مال روڈ میرے سے دس پندرہ منٹ کی دوری پر ہے اور بیڈن روڈ بھی کم و بیش اتنے ہی فاصلے پر پھر مزنگ چونگی جو الیکٹرانک سامان کا بڑا مرکز ہے اور شیزان بیکری اس سے قریب ہے اور ایک دو مرتبہ شیزان جانے کا اتفاق ہوا ہے اسی طرح ٹیمپل روڈ جو آج کل حمید نظامی روڈ کہلاتا ہے یہ سب بتانے کا مقصد اپنے قارئین کو یہ ہے کہ نوازشریف کی لوٹ کی دولت پر پلنے والے کچھ ٹی وی اینکر اپنے ہاتھوں میں مائیک پکڑ کر انہی بازاروں میں آئے ہوئے شہریوں سے ان کے منہ میں ڈالے ہوئے اپنے جوابات کہ مہنگائی کا کیا حال ہے وہ بیچارے اپنی خرید و فروخت کے باوجود کہتے ہیں بڑی مہنگائی ہے اور یہ ساتھ ہی تبدیلی کی آواز بلند کرکے عمران خان کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں لیکن میں حیران ہوں کہ یہ بازار خریداروں سے بھرے پڑے ہیں اور گاہک ہر قسم کی خریداری میں مصروف پائے گئے ہیں، میں خود پریشان ہوں کہ یہ لوگ چند سکوں کی خاطر کتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ میں نے اپنے ان چار دنوں میں بازار میں بھرپور رونق دیکھی ہے، ابھی فورٹریس سٹیڈیم جانا نہیں ہوا ،وہاں کے حالات دیکھ کر پتہ چلے گا کہ کتنا زور و شور ہے مارکیٹ میں۔
قارئین وطن! پاکستان تین قسم کی عوام میں بٹا ہوا ہے اول تو بہت ہی امیر لوگ ہیں جنہوں نے لاہور شہر کے بڑے برے فائیو اسٹار ہوٹل اور ریسٹورنٹ بھرے ہوئے ہیں ،دوسرے لیول کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے متوسط ریسٹورنٹ بھرے ہیں اور مارکیٹس بھی ان کے دم خم سے بھری ہوئی ہیں اور شہر میں جا بجا رونقیں لگی ہوئی ہیں اور تیسرے لیول کے وہ لوگ ہیں جو مہنگائی کے باوجود اپنا چولہا جلا رہے ہیں لیکن ریڈیو، ٹی وی، اخبارات عمرانی حکومت کیخلاف زبردست ناکامی کا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوازی پراپیگنڈہ بڑا زبردست ہے کہ حکومت اب گری کہ گری اور اس کو باجوہ صاحب کے ہاتھوں نے بچایا ہوا ہے ،اب یہ دیکھنا ہے کہ کب تک باجوہ عمران کو بچاتا ہے اور کب تک نوازی مافیا اس کو گرانے میں کامیاب ہوتا ہے، یہ چوہے بلی کا کھیل ہے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔
قارئین وطن! آج مجھے اقبال ڈار، جونیجو مسلم لیگ کے صدر نے اپنے دولت خانے پر مدعو کیا ہے انہوں نے کسی آل پارٹی اتحاد کے بارے ذکر تو کیا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں اب غیر حاضر سیاست پر یقین نہیں رکھتا اور ویسے بھی سیاست اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ ہم جیسے دال روٹی کھانے والے اسی نئے سیاسی پیرا ڈائم میں فٹ نہیں ہوتے۔ اب یہ جا کر پتہ لگے گاکہ وہ مجھ غریب سے کیا چاہتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں عمران کی حکومت کی اخلاقی سپورٹ کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہ اپنے پانچ سال مکمل کرے، میں تو ذاتی حیثیت میں عمران کو پسند کرتا ہوں لیکن اس کی حکومت میں گھس بیٹھےے میرے بڑے ناپسند اشخاص ہیں لیکن اپنی 50 سالہ سیاسی زندگی میں میں ایک بات سمجھ سکا ہوں کہ بعض دفعہ آپ کو ان ناپسند لوگوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے لیکن اس کیلئے اپنی آنکھیں کھول کر رکھنی پڑتی ہیں۔
قارئین وطن! اگلے ہفتہ شہر اقتدار میں جاﺅں گا اور پھر تازہ تازہ خبریں اور تبصرے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کروں گا ،اس وقت تک مجھے اپنی دعاﺅں میں یاد رکھیں اور میں آپ لوگوں کو۔