سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! یہ ہفتہ سیاسی گہما گہمی اور سیاسی اچھل کود کا رہا مقامی طور پر سب سے بڑا ایونٹ آئی ایس پی آر کے میجر جرنل بابر افتخار صاحب کا تھا میں نے پہلی دفعہ بڑے غور و فکر کے ساتھ اپنے آئی پیڈ پر ان کی پریس کانفرنس کو سنا اور دیکھا جرنل صاحب نے پاکستان کو در پیش عسکری معاملات کا کھل کر احاطہ کیا اور مشرقی اور مغربی باڈرز پر بھارتی خر مستیوں کا خوب ذکر کیا اور قوم کو بتایا کہ فوج مکمل طور پر ان کی گردن توڑنے کے لئے تیار کھڑی ہے ،ان کا عزم اور جذبہ دیکھ کر میرا ناتواں خون بھی جوش مارنا شروع ہو گیا اور میری آنکھوں کے سامنے 1965 کا منظر دوڑنے لگا جرنل صاحب کی کانفرنس کا پیک ا±س وقت دیکھنے والا تھا جب صحافیوں اور ٹی وی اینکروں نے سوال جواب کا سلسلہ شروع کیا سب سے زیادہ شہرت ان کے اِس جواب پر ملی جب صحافی نے ا±ن سے پوچھا کہ “مولانا فضل الرحمان” بڑے طمتراق انداز میں پنڈی آنے کی دھمکیاں دے رہا ہے مطلب “ جی ایچ کیو جرنل صاحب نے بڑے ہنستے ہوئے کہا کہ ا±س کا پنڈی آنے کا جواز تو نظر نہیں آتا لیکن اگر وہ آئے گا تو اس کو چائے پانی پلائیں گے،صحافیوں نے جرنل صاحب کے اس جواب پر خوب قہقہ لگایا اور ایک دوسرے کو بڑی معنی خیز انداز میں ایک دوسرے کو دیکھا،بس اس کے بعد اخبارات اور ٹی وی اسٹیشنوں نے جرنل کے اس جملہ پر اپنے اپنے معنی پہنانے شروع کر دئیے جبکہ سادہ سادہ مطلب کہ “مولوی صاحب ذرا پنڈی دا رخ تے کرو تے فئیر ویکھو تہانوں پھینٹی کیسے لگدی اے” بس ا±س کے بعد مولوی صاحب کے مزاج میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے ۔
قارئین وطن! جرنل صاحب کی اس پریس کانفرنس کے بعد نہ صرف مولوی فضل الرحمان بلکہ بہت سے مزاجوں میں ایک کروٹ کی آہٹ سنائی دی بہت سے دائیں بائیں گیٹ نمبر چار کی یاترا کے امیدوار بھی نظر آئے اور ان کی امیدیں بھی جاگ اٹھیں اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ جن بڑے سیاست دانوں کو میں نے دیکھا اور سنا انہوں نے ایوبی مار شل لا کی مخالفت کی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے قید وبند کی تکالیف اُٹھائیں ایوب خان نے بڑے بڑے عہدوں کی آفر کی بکنے والے کچھ بک گئے لیکن قائد اعظم کے سپاہی ثابت قدم رہے اور آج بونے خائین لٹیرے قوم کی دولت لوٹنے والے دیکھتے دیکھتے رہنما بن گئے ہیں جنہیں ہم چور کہتے ہیں وہ صاحب ہو گئے ہیں اور جمہوریت جمہوریت کا کھیل کھیل کر ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں اور سب کی یہی خواہش ہے کہ صرف ایک بار صرف ایک بار ہماری طرف بھی دیکھ لیں، دیکھا جائے تو سو کالڈ ہماری تینوں اپوزیشن کاپوریشن اور ان کے سربراہ کرپشن میں کوئی جیل میں ہے تو کوئی ملک سے بیماری کے نام پر فرار ہے کوئی فرار ہونے کی تگ و دو میں ہے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے ان کی نظر میں عمران خان کی جمہوری حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو صرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اور ا±ن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بیرونی آقاو¿ں سے لے کر مقامی طاقتور وں کے ہاتھ پاو¿ں جوڑے جارہے ہیں اب دیکھئے کہاں جا کر یہ سفر رکتا ہے ۔
قارئین وطن! اس ہفتہ کا دوسرا بڑا شو “ براڈ شیٹ اسکینڈل” اور ا±س کے سی ای او کاوےمساوی کا زور شور تھا سب سے پہلے برطانیہ میں بیس نوجوان جرنلسٹ عرفان ہاشمی نے براڈ شیٹ اسکینڈل کو بریک کیا بس پھر کیا تھا سب سے پہلے تو نواز شریف کی نئی نئی انقلابی خود کرپٹ ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے سزا یافتہ اپنے کرپٹ باپ کی صفائی میں پاکستانیوں کو گمراہ کرنے نکل آئی کہ اللہ کا شکر ہے کہ نواز شریف ایون فیلڈ کے معاملات پر بے گناہ ثابت ہو گیا جو کہ جھوٹ پر مبنی اصل حقائق کو سپن دینے کی ناکام کوشش تھی ، عرفان ہاشمی نے مساوی سے تین حصوں میں انٹرویو کیا اس نے بڑے بڑے انکشافات کئے ہر بڑا شخص جو صاحب کردار نظر آتے تھے کرپٹ چور اور خائین نکلے الیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر تقسیم ہو گیا، نواز شریف سے رقم بٹورنے والے اینکرز نے مساوی کو جھوٹا اور خود چور ثابت کرنے کی تصویر کشی کی اور دوسری جانب عوام کا درد رکھنے والے اور عمران خان کی حکومت کا ساتھ دینے والے اینکرز نے مساوی کے انکشافات کی بھر پور حمایت کی آصف زرداری نواز شریف اور بے شمار بیوروکریٹ اور جرنل صاحبان کے لمبے لمبے ہاتھ قوم کی دولت لوٹنے والوں میں شریک کار ملے مجھے ان لٹیروں کی لوٹ پر ایک قطعہ یاد آرہا ہے !
چاروں طرف تھی لوٹ برابر مچی ہوئی
جو جس کے ہاتھ لگا وہ لوٹ تا رہا
وہ لوٹتے رہے میرے قرار کو
اور میں بے قرار یوں کا مزہ لوٹ تا رہا
ہمارے ملک کی اشرافیہ کی لوٹ اور جھوٹ کا تماشہ کھلے عام لگا ہوا ہے ہمیں اپنی آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے ،قارئین وطن! میری ہوش مندی یہ بتاتی ہے کہ اس تمام لوٹ اور چوری کا ذمہ دار ایک شخص اور واحد ایک شخص جرنل پرویز مشرف ہے جس نے اپنی حکومت کو طول دینے کے لئے نواز شریف ، بینظیر بھٹو ا±س کے خاوند آصف زرداری، چوہدری شجاعت کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے ناموں کی لمبی تفصیل ہے سارے نام لکھ نہیں سکا ہاں ایک اور نام یاد آتا ہے مشہور بیوروکریٹ احمد صادق حالانکہ میری نظر میں بڑا صادق تھا بینظیر نواز شریف بھی ایسے ہی پاک باز تھے لیکن اللہ اللہ یہ تو ڈاکوو¿ں کے بھی ڈاکو نکلے – جی ہاں جہاں یہ ڈاکو ہیں وہیں پر جرنل پرویز مشرف بڑا ڈاکو نکلا جس نے ان لوگوں کو این آر او دیا ان جرائم کی سزا کا سب سے بڑا مجرم پرویز مشرف ہے ہاں اگر میں مقدور ہوتا تو میری نظر میں مشرف کی سزا “hang him by the nearest tree” تھی – مساوی کی ساری گفتگوکا کرکس (crux )یہ ہے کہ اس نے پاکستانی قوم کے لٹیروں اور چوروں کو چوک پر ننگا کر دیا ہے تھینک یو مساوی۔
٭٭٭