قارئین وطن! آج جب ہم پاکستان کی سیاست کی طرف نظر دوڑاتے ہیں خاص طور پر بلوچستان میں ہونے والی تخریب کاری اور علیحدہ پسند قوتوں کی جانب تو 54 سال پہلے دسمبر پر جا کر ٹھہر تی ہے فرق اتنا ہے کے اس وقت جرنل محمد یحییٰ خان برسر اقتدار تھا اور اس نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تھا اور آج خائین چور لٹیرے اور لاچار قسم کے حکمران سامنے ہیں اور پشت پر جرنیلی ٹولہ جس کو پولیس والوں کی زبان میں پنجڑی جیسے یحییٰ کی تھی جرنل حامد، جرنل مٹھا، جرنل پیرزادہ، جرنل گل حسن اور جرنل عمر نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی ہوئی ہے۔ اس وقت بھی الیکشن ہوا تھا اور آج بھی الیکشن ہی مسلہ ہے اس وقت کے الیکشن میں عوامی لیگ جس کے صدر شیخ مجیب ارحمان تھے جن کو اکثریت کے ساتھ کامیابی ملی اور آج عمران خان نیازی تحریک انصاف کے چئیرمین کو اکثریت ملی ان دو الیکشنوں میں فرق اتناہے کہ الیکشن صاف شفاف ہوا تھا عوام نے اپنی منشا کے مطابق ووٹ دیا مجیب بلا شرکت غیرے سیٹوں پر الیکشن جیتا اور دوسری پوزیشن ذوالفقار علی بھٹو جس کو صرف ووٹ ملے اور آج بغیر الیکشن کمپین چلائے پارٹی نشان کے بغیر عمران خان صاحب کو مکمل اکثریت ملی کہ الیکشن میں نمبر دو پر آنے والی جماعت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کی شکست خوردہ نیت اور سازش نے یہ کہہ کر (کہ ہم یہاں تم وہاں )ملک دو لخت کر وا دیا اور یہاں پر گویا( ہم یہاں تم وہاں)کا نعرہ لگانے والا بھٹو تو زندہ نہیں ہے لیکن اس کا داماد اور نواسہ اسی شد و مد کے ساتھ بشمول نواز شریف شہباز شریف جرنیلی ٹولہ کی پشت پناہی کے ساتھ کسی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کام کر رہے ہیں تو مجھے محسن بھوپالی کا یہ شعر بڑا ستاتا ہے !
نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
قارئین وطن! اپریل کو بھٹو کی برسی منائی گئی سرکار نے اس کی برسی منانے کے لئے کروڑوں روپیخرچ کر دئیے کسی نے اس کو قائد عوام کا خطاب دیا کسی نے غریبوں کی آواز کہا کسی نے کچھ کہا لیکن کسی کو یہ یاد نہیں رہا کے اس نے اپنی سازشی خصلت سے مجیب کا سیاسی طور پر مقابلہ نہ کرنے کی ہمت نے قائد اعظم اور دس لاکھ انسانوں کے خون کی بلی چڑھا دی اور ملک ٹوٹ گیا اور اس وقت کے جرنیلوں کو بھی شرم نہ آئی جو بھٹو کے ساتھ مل کر ملک توڑنے کی سازش میں شامل ہو گئے جیسے آج کا یحیحی خانی طبقہ خائین اور لٹیروں کے ساتھ مل کر صرف ایک آدمی جس کے لئے میرے مرشد اقبال نے کہا!
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
عمران خان سے اتنا خوف کے ان کو اس کی پرواہ نہیں کہ ملک کی ہولناک تباہی کی جانب جا رہا ہے میں جیسے جیسے حمود ارحمان کمیشن کے ورق پلٹتا ہوں مجھے اس وقت کے جرنیلوں سے زیادہ آج کے جرنیلوں سے خوف آتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے ۔
قارئین وطن! کچھ دن اقتدار کی راہداریوں کے چکر لگائے اور ان راہداریوں میں گھمن گھیریاں لگانے والوں کے جب چہرے میرے سامنے آتے ہیں تو میں یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں کتنے بھیانک چہرے تھے احباب کے مگر، پچھتا رہا ہوں ان سے ملمہ اتار کر آج ہم یہاں تم وہاں کہنے والا تو موجود نہیں ہے لیکن آج فارم کی ہر آستین میں ہم یہاں تم وہاں بیٹھا ہوا ہے یحیحی کے پانچ ہم رقابوں نے مل کر اسلام کی سب سے بڑی فوج سے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ہتھیار ڈلوا ئے جرنل عاصم منیر کے ہم رقاب پتا نہیں کیا کرواتے ہیں اللہ سے خیر ہی مانگ سکتے ہیں کہ اے اللہ پاکستان کو آستین کے سانپوں سے بچا لے آمین ۔
٭٭٭