اوورسیز پاکستانی فائونڈیشن آف پاکستان جسے مخفف میں او پی ایف کے نام سے پکارا جاتا ہے جو ایک ایسا ادارہ ہے جس کی ایک ساکھ ہے اور جسے اوورسیز پاکستانیوں کی بہبود کے لیے انیس سو اناسی میں حکومت پاکستان نے ایک مشن کی تکمیل کے لیے قیام عمل میں لایا تھا کیونکہ اس وقت بہت سے پاکستانی بیرون ممالک میں کام کرنے لگ گئے تھے ان کی جائز شکایات کے ازالہ کے لیے اس وقت کی حکومت مناسب قدام اٹھانا چاہتی تھی اور تب سے اب تک او پی ایف تندہی سے اپنا کام سرانجام دے رہی ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید بہتری آتی گئی رئیل اسٹیٹ پر بہت کام ہواہے اب بھی ملک کے کئی شہروں میں کئی ایک پراجیکٹ شروع ہیں جہاں بہت سی ہاوسنگ سکیمیں چل رہی ہیں اس کے علاوہ تعلیم، شکایات کا سیل، معاشی امداد، بیرون ملک مقیم ورکرز کی عوضانہ کے حصول میں مدد، غیر ہنر مند افراد کے لیے ووکیشنل ٹریننگ، ایمبولینس سروس اور تمام ملکی انٹرنیشنل ائیرپورٹس پر ون ونڈو ڈیسک قائم ہیں اوورسیز پاکستانیوں کی خوش قسمتی کہ پہلی دفعہ کوئی ان میں سے ایک اوورسیز پاکستانی فانڈیشن کے بورڈ آف گورنر کا چیئرمین نامزد ہوا ہے سید قمر رضا اس ادارہ کے گورننگ بورڈ کے پہلے اوورسیز پاکستانی ہیں جو کہ چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر ہیں وہ لندن میں مقیم ایک متمول تاجر ہیں جن کا اندرون و بیرون ملک ایک وسیع کاروبار ہے وہ ہم سے ہی ہیں گزشتہ برس جب وہ امریکہ کے دورے پر آئے تھے تو ان سے ملاقاتیں رہیں انہیں دیکھنے اورسمجھنے کا موقع ملا وہ سلجھے ہوئے اور متوازن شخصیت کے مالک ہیں ان کی گفتگو سے اورسیز پاکستانیوں کے لیے کچھ کر گزرنے کی نوید ملتی ہے ان کے منصوبوں میں پی آئی اے پروازوں کی بحالی بارے کہا گیا جو کہ بتدریج جاری ہے موبائل پر ٹیکس ختم کروانا،اس پر بھی عمل ہوا بیرون ملک بسنے والوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم کے عوض پاکستان میں امپورٹ ڈیوٹی میں چھوٹ، اور اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایڈوائزری کونسل کا قیام جس کے دو سو ممبرز ہوں گے انہیں پاکستان میں سٹیٹ گیسٹ کا درجہ ملے گا اور وہ اپنے مسائل بھی حکومت کو ڈائریکٹ پہنچا سکیں گے اچھے اقدامات کے لیے اچھے افراد کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے اسی سلسلہ میں تمام اوورسیز پاکستانیوں میں دو سو کے قریب شخصیات کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں راقم کے ساتھ ساتھ امریکہ سے پچاس کے قریب افراد شامل ہے اور یہ تمام خواتین و حضرات تیرہ سے پندرہ اپریل کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح بہبود کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور اپنی اپنی معروضات پیش کریں گے ایک دن آرمی چیف جنرل منیر اور پھر اس سے اگلے دن پرائم منسٹر شریف سے ڈنر پر ملاقات ہوگی وہاں پر بھی اورسیز کے مسائل پر ہی بات ہوگی کچھ ان کی سنیں گے اور کچھ ہم اپنی سنائیں گے۔ او پی ایف کے پاس سات ارب روپے کا سالانہ فنڈ موجود ہوتا ہے جس کا کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ کہاں خرچ ہو رہا ہے کیسے خرچ ہو رہا ہے یورپ اور امریکہ میں تو او پی ایف کے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر تک نہ تھی اکثر نان پرافٹ اورگنائزیشنز مختلف ناموں سے اووسیز کی نمائندگی کا دعوی کرتی نظر آتی ہیں امریکہ اور انگلینڈ کے برعکس خلیجی ممالک میں وہاں کی اکثریت چونکہ ورک پرمٹ پر کام کرنے جاتی ہیں اور او پی ایف کی انکم کا زیادہ تر حصہ گلف میں مقیم اوورسیز پاکستانی فانڈیشن کی ممبرشپ کی بدولت ہی موصول ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی ویزہ پروٹیکٹر فیس کا ایک حصہ او پی ایف کو دینے کے پابند ہیں او پی ایف کے سات کالج بیس سکول کچھ ہاسنگ سوسائیٹیز اور پچیس سو کے قریب ملازمین ہیں اوورسیز پاکستانیوں کے مرنے پر کئی لاکھ انشورنس کلیم داخل کیا جا سکتا ہے اور ڈیڈ باڈی کی ترسیل کے لیے معاونت کے ساتھ ساتھ لواحقین کی دادرسی بھی شامل ہے جن میں بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کئے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ پاکستان میں اس وقت دہشت گردی اور معاشی بحران کی کیفیت ہے جس پر موجودہ حکومت کام کر رہی ہے کسی حد تک معاشی بحران پر قابو بھی پایا جا چکا ہے اس پر گذارش ہے کہ اگر پاکستان کی موجودہ حکومت پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر ناجائز قبضے کے مسائل پر قابو پا لے تو اوورسیز پاکستانی پاکستان میں ہی اپنی رقوم پراپرٹی میں انویسٹ کرنے کو اولین ترجیح دیں گے جس سے سرمایہ پاکستان میں رش کرے گا اس وقت صرف امریکہ میں اوورسیز پاکستانیوں کے پاس دو سو ارب ڈالرز کے قریب رقوم موجود ہیں اور دبئی والے وہاں پر جائیداد میں انویسٹمنٹ پر تو ہر طرح کی سہولیات دینے کو تیار ہیں یہاں تک کی کیپٹل گین ٹیکس میں بھی مکمل چھوٹ ہے ۔
٭٭٭