وزیر اعظم کا لاک ڈاﺅن مرحلہ وار کھولنے کا اعلان، وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں چھوٹی دکانیں فجر سے شام 5بجے تک کھولی جا سکیں گی۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہسپتالوں میں مخصوص اوقات میں او پی ڈیز کھولی جائیں گی۔ دیہات میں چونکہ کورونا وائرس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے دیہی علاقوں میں تمام دکانیں کھلی رکھی جا سکتی ہیں۔ پائپ ملز‘ پینٹ بنانے والے کارخانے‘ سرامکس کا شعبہ اور ہارڈ ویئر سٹور کھولے جا رہے ہیں۔ فیصلے کے بعد وزیر اعظم نے بتایا کہ پاکستان میں کورونا سے شرح اموات بڑھ رہی ہے لیکن نچلے طبقات بڑی مشکل میں ہیں۔ لاک ڈاﺅن کھولنے کا فیصلہ محنت کشوں کی مشکلات کے باعث کیا ہے۔ وزیر اعظم نے خدشہ ظاہر کیا کہ لاک ڈاﺅن نرم ہونے کے بعد اگر تمام شعبوں نے ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو پھر سے سب کچھ بند کرنا پڑے گا۔ لاک ڈاﺅن نرمی کے فیصلے میں کچھ شعبوں کو بدستور بند رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ وفاقی حکومت نے تمام تعلیمی بورڈز سے امتحانات منسوخ کرنے کا کہا ہے۔ بسیں‘ ریل گاڑی اور اندرون ملک پروازیں بند رہیں گی۔ نہم سے 12ویں جماعت تک کے طلباءکو اگلی جماعتوں میں بھیج دیا جائے گا۔ سکولوں کو 15جولائی تک بند رکھا جائے گا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ لاک ڈاﺅن میں نرمی کے حوالے سے کچھ امور پر صوبوں اور مرکز کے درمیان اتفاق نہیں ہو سکا۔ محدود وسائل اور ناکافی استعداد کے باوجود پاکستان نے کورونا وائرس کے انسداد کی خاطر موثر اقدامات کئے ہیں۔ ہوائی اڈوں اور سرحدی آمدورفت والے مقامات پر سکینر نصب کئے گئے اور طبی عملہ تعینات کیا گیا۔ شادی ہال‘ جم‘ شاپنگ مال‘ ٹرین سروس‘ ٹرانسپورٹ اور تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ مساجد اور دیگر عبادت گاہوں کے لئے متعلقہ علمائے کرام کی مشاورت سے حفاظتی تدابیر وضع کی گئیں۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت نے پہلے دن سے اس بات پر توجہ مرکوز رکھی کہ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے نچلے طبقات کی معاشی مشکلات میں اضافہ نہ ہو۔ چین کے بعد یورپ اور امریکہ میں جس طرح کورونا نے تباہی پھیلائی اس کو دیکھتے ہوئے اس بات کے خدشات موجود رہے ہیں کہ لاک ڈاﺅن ختم کرنے یا نرم کرنے سے کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو جائے۔ گزشتہ دس روز کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہر روز کورونا سے مرنے والے افراد کی تعداد اوسطاً30تک جا پہنچی ہے۔ مجموعی طور پر پورے ملک میں 23ہزار سے زائد افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔ ان افراد کو صحت مند افراد سے الگ رکھنے اور ان کے بے یارو مدد گار ورثاءکے لئے ضروریات کا خیال رکھنا ایک مشکل ہدف ہے جس کے حصول کے لئے حکومت نے احساس کفالت پروگرام شروع کر رکھا ہے۔احساس کفالت پروگرام کے ذریعے عام لوگوں کو کسی سیاسی تنظیم یا شخصیت کے ذریعے مدد دینے کی بجائے براہ راست نقد امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں سماجی ڈھانچہ ایک مدت تک بدعنوانی کا اسیر رہا ہے لہٰذا سندھ اور جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں ایسے افراد کی شکایات موصول ہوئیں جو احساس پروگرام کی امداد میں کٹوتی کر رہے تھے۔ رینجرز اور احساس پروگرام انتظامیہ نے ان کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرا دیں۔ فروری سے لے کر مئی کا مہینہ آ پہنچا۔ ان دو ڈھائی ماہ میں پہلے سے معاشی بوجھ تلے دبی حکومت نے زنگ آلود انتظامی ڈھانچے کی مدد سے محروم طبقات کی حتی المقدور مدد کی کوشش کی۔ وفاقی حکومت نے مختلف شعبوں کے لئے 1200ارب روپے کا امدادی پیکیج جاری کیا۔200ارب روپے صرف دیہاڑی دار طبقات کے لئے رکھے گئے۔ ابتدائی اندازوں کے برعکس کورونا کی وبا جلد ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ سائنسدان ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں۔ دنیا کا ہر ملک کورونا کا علاج دریافت کرنے کے لئے اپنی استعداد سے بڑھ کر کوشش کر رہاہے۔ ابھی تک کورونا انسداد کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ وبا کو پھیلنے سے ایک ہی صورت میں روکا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاﺅن کر دیا جائے۔ لاک ڈاﺅن جاری رکھا جائے تو شہری بھوکا مرتے ہیں۔ پاکستان جیسی قرض دار غریب ریاستوں کا کیا ذکر یورپ‘ برطانیہ اور امریکہ کی معیشتوں نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ امریکہ کی جی ڈی پی میں رواں سہ ماہی میں 5فیصد کمی واقع ہو چکی ہے‘ بھارت کی جی ڈی پی اس سال 4.5فیصد رہنے کا امکان تھا اب اس کی گراوٹ 2فیصد تک ہونے کا امکان ہے۔ دنیا میں دولت اور طاقت کا استعارہ سمجھے جانے والے ممالک کورونا سے بچاﺅ کی خاطر لاک ڈاﺅن کر کے معاشی سطح پر سنگین مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔ حالیہ برس آئی ایم ایف کے بیل آﺅٹ پیکیج‘ ٹیکس اہداف میں مثبت پیشرفت‘ بیرونی ممالک سے ترسیلات زر میں اضافہ اور حکومت کی جانب سے کفایت شعاری مہم نے کچھ بہتری کے آثار پیدا کئے تھے۔ معاشی ماہرین پاکستان کی شرح نمو میں اضافے کی پیش گوئی کر رہے تھے لیکن کورونا نے ان سب اصلاحات پر پانی پھیر دیا۔ لاک ڈاﺅن میں نرمی کا فیصلہ کئی شعبوں میں روزگار کی صورت حال میں بہتری لا سکتا ہے۔ وہ دیہاڑی دار جن کو گھر کا چولہا جلانے میں دقت ہو رہی تھی ان کے لئے کچھ آسانی ہو گی لیکن اس فیصلے کو عوام کے عمومی طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ایک مشکل فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ صوبے اور وفاق کے درمیان اختلافات اسی نکتہ پر پائے جاتے ہیں۔ سندھ کی طرف سے کچھ شعبوں کو پابندیوں سے آزاد کرنے پر اعتراض کے پس پردہ بھی وبا پھیلنے کے خدشات ہیں۔ بہرحال ایس او پیز پر عملدرآمد کروایا جائے تو خدشات کو حقیقت بننے سے روکا جا سکتا ہے۔
٭٭٭