اوریا مقبول جان
دنیا کی تاریخ دراصل تہذیبوں،سلطنتوں اور ان سے جنم لینے والے اطوار زندگی کی تاریخ ہے، کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں انسان نے اپنے کمالات سے گہرے تہذیبی نقوش نہ چھوڑے ہوں ،آج بھی دنیا کے نقشے پر آثار قدیمہ ان کے عروج کی گواہی دیتے ہیں۔ مصر میں فراعین کے اہرام ہیں تو دجلہ و فرات کے کناروں پر نمرودوں کے آثار۔ موئن جوداڑو کی وادی سندھ اور چین کی ٹیراکوٹا فوج کے آثار بتاتے ہیں کہ انسانوں نے مختلف ادوار میں اپنے لئے ایک طرز زندگی یا لائف سٹائل وضع کیا۔ اسے اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا اور پھر اسے آئیڈیل یعنی مثالی کہنے لگے۔ تہذیبوں‘ سلطنتوں اور بادشاہتوں کے مراکز میں رہنے والے امرا‘ شرفاءاور اہل دربار زندگی بسر کرنے کا جو ڈھنگ اختیار کرتے وہ باقیوں کے لئے نمونہ اور معیار بن جاتا۔جیسی شاعری ‘ موسیقی ‘ لباس کی تراش خراش اور گھروں کی زیبائش ان مراکز میں رواج پاتی اسے اردگرد کے لوگ بھی اپنے لئے آئیڈیل تصورکرتے۔ اسی طرح جس قسم کی اخلاقیات ان سلطنتوں کے مراکز میں اختیار کی جاتیں وہی عام آدمی کے لئے بھی ایک آدرش یا معیار بن جاتیں۔ فحاشی و عریانی بے راہ روی و بے حیائی اگر سکہ رائج الوقت ہوتا تو ہر کوئی اس سے لطف اندوز ہونے کو اصل زندگی تصور کرتا۔ اسی طرح اگر ایک قوم کو مسلسل غلام رکھ کر ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا اور ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا جاتا تو اسے حکمران نسل یا قوم کا پیدائشی حق تصور کیا جاتا اور کوئی اس غلام اور محکوم قوم پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آنسو تک نہ بہاتا۔ ان قدیم تہذیبوں کے شعرا اور ادیبوں سے لے کر نسبتاً کم پرانی یونانی اور رومن تہذیبوں کے اہل فن کے شہ پاروں تک کسی میں بھی غلام لوگوں پر ڈھائی جانے والی اذیتوں کا ذکر نہیں البتہ ان کو تفریح کے لئے شیروں کے سامنے ڈالنے‘ موت تک بھوکے بھیڑیوں سے لڑنے کے مناظر کو دلکشی سے قلمبند کیا گیا ہے۔ ان تمام تہذیبوں اور مثالی طرز زندگی کے مقابلے میں ہمیشہ اللہ تبارک و تعالی نے انبیاءعلیہ السلام کو معبوث فرمایا۔ یہ میرے اللہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے ہر قوم کے لئے ایک ”ہادی“یعنی راستہ دکھانے والا،ہدایت پہنچانے والا بھیجا۔ فرمایا”آپ تو محض خبردار کر دینے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک ”ہادی“ ہے(الراعد:7) ان پیغمبروں کی اصل جنگ اپنے دور کی اس مثالی طرز زندگی کے ساتھ تھی۔ ہر نبی‘ رسول اور پیغمبر نے اپنے دور کی اخلاقی‘ معاشرتی اور سیاسی طرز زندگی کو اللہ کے احکامات کے تابع کرنے کی جنگ لڑی ہے۔ انسان کا ازل سے صرف ایک ہی مسئلہ ہے کہ وہ اس قدر کمزور و بے بس ہے کہ اس بات پر تو سمجھوتہ کر لیتا ہے کہ انسان کائنات کو بنانے والے اور اس کو خوبصورت توازن سے چلانے والا کوئی ہے جسے کسی بھی نام سے پکارا جا سکتا ہے لیکن وہ اس اللہ کو اپنی ذاتی زندگی سیاسی انتظام یا معاشرتی اخلاقیات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دینا چاہتا۔ جدید دنیا کے الحاد کا بھی معاملہ یہی ہے کہ آج کا ملحد تھوڑے بہت دلائل کے بعد یہ تو مان جاتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے لیکن وہ اسے اس وجہ سے نہیں مانتا کیوں کہ وہ اس کے سامنے اپنی آزادی قربان نہیں کرنا چاہتا۔ ہر دور کا ملحد یہی چاہتا ہے کہ اس کی زندگی میں اللہ کسی قسم کی دخل اندازی نہ کرے۔ بس اپنے نظام کائنات کو بحسن و خوبی چلاتا رہے لیکن اللہ نے پیغمبروں کو ہر دور اور ہر قوم و علاقے میں اسی لئے معبوث فرمایا کہ وہ دنیا پر واضح کریں کہ بحیثیت خالق اس نے یہ دنیا عبث پیدا نہیں کی اور وہ خالق و مالک و مختار کی حیثیت سے یہ چاہتا ہے نہ اس کے احکامات کے مطابق طریقہ زندگی(life style)اختیار کی جائے۔ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ ‘ حضرت ہارون اور فرعون کے درباریوں کے درمیان کشمکش اور اس ازلی و ابدی جنگ کو اس خوبصورتی سے سمیٹا ہے۔ اللہ فرماتا ہے”آخر کار کچھ لوگوں نے کہا کہ ”یہ دونوں محض جادوگر ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریق زندگی (ideal life style)کا خاتمہ کر دیں۔ اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کر لو اور ایکا کرکے میدان میں آﺅ بس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا:(طحٰہ 63,64) یہ اس وقت اور لمحے کی گفتگو ہے جب فرعون کی بنائی ہوئی تہذیب مصر کا سامنا حضرت موسیٰ کی شریعت کے ساتھ فرعون کے دربان میں ہوا تھا اور تمام جادوگر اکٹھے کر لئے گئے تھے۔ اسی گفتگو کے بعد انہوں نے رسیاں پھینکیں تھیں جو سانپ بن گئیں تھیں اور حضرت موسیٰ کا اعصاءاژدھا بن کر ان کو نگل گیا تھا۔ فرعون کی سلطنت میں جو طریقہ زندگی تھا۔قرآن کہتا ہے کہ وہ اسے آئیڈیل طرز زندگی کہتے تھے۔ یہ طاقت ،کفر شان و شوکت کے ساتھ ساتھ فحاشی و عریانی ‘ بے حیائی و بے راہ روی کے ساتھ ظلم و بے انسانی پر مبنی تھا۔ اس کا عروج کا زمانہ سیدنا یوسف علیہ السلام کا دور تھا ،جب اخلاقیات اپنے زوال کی اس انتہا پر تھیں کہ صاحب حیثیت عورتیں کسی مرد کو منتخب کرتیں اور مل بانٹ کر اس سے لطف اندوز ہوتیں۔ فرعون کے درباریوں نے بھی قرآن کے مطابق ا سے ڈرایا اور کہا کہ یہ لوگ صرف علاقہ ہتھیانے کے لئے نہیں آئے بلکہ تم سے تمہارا یہ آئیڈیل لائف سٹائل چھیننے آئے ہیں اور اگر یہ فتح یاب ہو گئے تو تمہاری زندگی بے رونق، بے مزہ اور بے لذت ہو کر رہ جائے گی۔ آج بھی اس دنیا کو ویسی ہی آئیڈیل لائف سٹائل کی جنگ کا سامنا ہے گزشتہ200 سال سے تعلیمات خدا وندی سے انکار پر ایک طریقہ زندگی اختیار کیا گیا ہے جسے دنیا آئیڈیل سمجھتی ہے۔ آج بھی ترقی ‘ شہری زندگی‘ طرز حکمرانی‘ جمہوریت‘ معیشت‘ معاشرت اور اخلاقیات میں ترقی اور برتری کی علامات مغربی دنیا کو سمجھا جاتا ہے جسے عرف عام میں ترقی یافتہ (Developer)دنیا کہتے ہیں اور سب کو اس کے رنگ میں رنگنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ دو سو سال سے یہ تہذیب اپنے ان ملکوں اور شہروں میں بام عروج پر رہی ہے لیکن آج اس طریق زندگی پر خطرناک سائے منڈلا رہے ہیں۔ کورونا میں یہ تو ممکن ہے کہ انسان بنیادی ضروریات روٹی کپڑا یا مکان وغیرہ بلکہ تعلیم اور صحت کو پورا کرتا رہے لیکن وہ تمام مظاہر جو اس آئیڈیل لائف سٹائل کے تھے وہ شاید مدتوں دوبارہ ویسے نہ ہو سکیں۔ ان مظاہر میں شاپنگ مال‘ فیشن انڈسٹری‘ فلم و ڈرامہ ‘ جسم فروشی اور فحاشی‘ شراب خانے ‘ موسیقی اور بڑے بڑے کنسرٹ‘ مقابلہ حسن اور کیٹ واک‘ میراتھان اور اولمپکس ‘ ٹورازم اور اس کے ساتھ وابستہ تمام کاروبار بشمول نائٹ لائف‘ یہ سب کے سب اس وقت بے معنی ہو چکے ہیں۔ یہ انسانی ضروریات کی لسٹ سے خارج ہو گئے ہیں۔ آج کہیں بھی لاک ڈاﺅن نرم ہوتا ہے تو ہر ملک صرف بنیادی ضروریات تک خود کو محدود رکھ رہا ہے۔ جدید تہذیب کا آئیڈیل طرز زندگی یوں لگتا ہے موت کی آغوش میں گہری نیند سو چکا ہے۔ ہر کسی نے یہ امید لگا رکھی ہے کہ کورونا ختم ہو گا تو ان کا آئیڈیل طرز زندگی دوبارہ موت کی خاموشی توڑ دے گا۔ اس کی بقا پر سب کی امیدیں ہیں لیکن اس کی فنا پر تقدیر کی مہر ثبت ہو چکی ہے۔
٭٭٭