رعنا کوثر
دنیا میں رنگ و نسل کا امتیاز ہمیشہ قائم رہا ہے، اور اس کو مٹانا ایک مشکل امر ہے، انڈیا اور پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اکثر یہ سوال اٹھتا ہے بلکہ نوجوان نسل یہ سوال اٹھاتی ہے کہ وہاں کالے اور گورے کا اتنا زیادہ فرق کیوں ہے اور ایک ہی گھر اور ایک ہی خاندان میں کچھ لڑکے لڑکیاں کالے اور کچھ گورے نظر آتے ہیں اور گورے بچوں کو ہمیشہ کالوں پر فوقیت دی جاتی ہے شادی کے وقت بھی گوری لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے اور کم رنگت والی لڑکی کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ یہ کالی ہے چاہے ناک نقشہ کتنا بھی اچھا ہو چاہے اس کا اخلاق گوری لڑکی سے بہتر ہو، گھر میں اس بچے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جو گورا اور خوبصورت ہوتا ہے جو سانولا ہوتا ہے اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اب اکثر بچوں کا جو امریکہ میں پرورش پا رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا میں بھی کیوں کالے اور گورے کا امتیاز پایا جاتا ہے اور یہ دو رنگ کے لوگ وہاں کیسے جمع ہو گئے میرا اپنا خیال تو یہ ہے کہ انڈیا جو کہ ایک زمانے میں بادشاہوں کا ملک تھا امیر تھا وہاں دنیا کی مختلف قومیں آکر آباد ہوئیں ان قوموں کا تعلق افغانستان، ایران، ترکی، مصر اور ارد گرد کے مختلف علاقے تھے اور پھر وہاں کے اپنے لوگ بھی تھے جو انڈیا کے مختلف خطوں میں آباد تھے اور اپنے خطے کی وجہ سے رنگت میں دیتے ہوئے تھے جیسے مدراس، حیدر آباد وغیرہ ان جگہوں پر بے حد تعلیم تھی نوکریوں کی بہتات تھی مختلف لوگ آباد ہوئے اور یوں آپس میں شادیاں ہوئیں اور کالے اور گورے کا اچھا خاصہ معاملہ دلوں میں گھر کر گیا اور ایک تفریق سی لوگوں کے دلوں میں آگئی جو آج تک چلی آرہی ہے اس بات کا ہی ابھی تک یہ اثر ہے کہ ہر گھر میں کالے گورے کا فرق محسوس کیا جا سکتا ہے تحریروں میں لوگوں کی باتوں میں اور رویوں میں ایک واضح فرق ہوتا ہے یہ جو آج کل کی نوجوان نسل جو کہ ذہنی طور پر بدل رہی ہے امریکہ میں کالوں کے حقوق پر جب بھی بات ہوئی ہے ہماری نسل بھی یہ پوچھنے لگی ہے کہ ہمارے ملک میں ہر عورت کو گوری بہو کیوں چاہیے ہوتی ہے ہر لڑکا گوری بیوی کی کیوں خواہش رکھتا ہے اور لڑکا اگر غلطی سے سانولی لڑکی پسند بھی کر لے تو گھر والے اس کو مسترد کیوں کر دیتے ہیں اسی طرح کسی فیملی میں کچے بچے گورے ہوتے ہیں اور کچھ بچے سانولے گورے بچوں پر خاص توجہ اورپیار دیا جاتا ہے اور سانولے بچوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ شاید یہ انسانی فطرت ہے کہ آپ کو گورے رنگ میں زیادہ جاذبیت اور خوبصورتی نظر آتی ہے فطرت کو تو نہیں بدلا جا سکتا مگر رویوں کو ضرور بدل جانا چاہیے کسی لڑکی کو یہ کہہ کر مسترد کر دینا کہ وہ کالی ہے اس کے دل دکھنے کا باعث ہے ویسے بھی اگر ذہن وسیع کر لیں تو کسی کی خوبیوںپ ر نظر رکھنے کی عادت پڑ جائے گی اور صرف لڑکیوں پر ہی کیا موقوف لڑکے بھی ڈر رہے ہوتے ہیں کہ ان کے کالے رنگ ان کی اچھی شخصیت کو دبا دیتے ہیں۔ معصوم بچے بچپن سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ان کے مختلف نام رکھ دیئے جاتے یہں کوئی کالو کہتا ہے تو کوئی منہ پر ہی کہہ دیتا ہے کہ یہ کتنا کالا بچہ ہے اگر کسی کالے بچے نے گہرے رنگ کے کپڑے پہن لئے تو اسے ہنس کر بہت عجیب نام دیئے جاتے ہیں۔
ہم دوسرے ملکوں کو کیا کہیں ہمارے اپنے ملک میں تعصب کی بے انتہاءمثالیں ہیں یہ تعصب ایسا ہے کہ نظر بھی نہیں آتا۔ کوئی اس پر احتجاج بھی نہیں کر سکتا کیونکہ گورے لوگوں کو تو اس معاملے میں کچھ کہنے کی بھی نہیں سوجھتی کوئی اپنے کسی بہن بھائی تک کیلئے کھڑا نہیں ہوتا کہ آپ اسے کیوں کالا کہہ رہے ہیں اور کالا تو کچھ کہہ ہی نہیں سکتا کہ اسے ویسے ہی ہنسی مذاق کا نشانہ بنایا ہوا ہوتا ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب نئی نسل نے اس کےخلاف کچھ آواز اٹھانی شروع کی ہے۔
٭٭٭