حیدر علی
گذشتہ کل علی الصّباح تقریبا” پانچ بجے جب خلاف توقع میرے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی تو مجھے کچھ اچنبھا سا معلوم ہوا۔ میں نے سمجھا کہ شاید کسی نے پاکستان سے کال کیا ہوگا اور رعائتی معاوضہ پر بچوں کو درس قرآن دینے کی پیشکش کر یگا۔ اُس بیچارے کو کیا پتا کہ بچے اب امریکا میں جوان ہوچکے ہیں ، اور وہ خود والدین کو درس قرآن اور وغیرہ وغیرہ کی تلقین کرتے ہیں۔ نیند کی غنودگی مجھ پر طاری تھی کیونکہ میں رات کے آخری پہر تک ٹی وی پر ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری الیکشن کے نتائج دیکھ رہا تھا۔ پھر بھی میں نے ٹیلیفون اٹھالیا۔ دوسری جانب ہمارے پرانے شناسا ہمایون مرزا کی حیدرآباد دکن سے کال تھی۔ اُنہوں نے عرصہ دراز کے بعد مجھے یاد کیا تھا۔ ہندوستانیوں کی یہ خصلت ہے کہ جب بھی اُنہیں کوئی کام پڑتا ہے تب ہی وہ کال کرتے ہیں۔ اُنہوں نے انتہائی روندھی ہوئی آواز میں فرمایا کہ” حیدر بھائی ! غضب ہوگیا ۔ ہمارے دونوں بیٹے اپنے بڑے بھائی کی شادی میں شرکت کیلئے حیدر آباد آئے ہوے تھے۔ پہلے تو ہوائی سفر پر پابندی عائد ہوگئی ، اور اِس لئے ہمارا بڑا بیٹا شادی کے بعد سعودی عرب واپس نہ جاسکا، اور اب ڈونلڈ ٹرمپ نے H-1 ویزا رکھنے والوں کو بھی امریکا میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ ©“ہمایون مرزا صاحب کی باتیں سُن کر مجھے سخت افسوس ہوا ، اگرچہ میرے اور اُن کے درمیان نوک جھونک ، طعنہ تشنہ پر مبنی تعلقات تھے۔ مرزا صاحب اِنڈین ایتھنک کے بڑے علمبردار ہیں، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستانی جہاں بھی جائیں شیروانی زیب تن کر کے گھوما کریں۔ لیکن میرا موقف بھی سخت ترین یہ ہے کہ ہندوستانی نوجوانوں کی یلغار جو H-1 ویزا لے کر امریکا آرہی ہے، اُنہیں ہندوستان کے سِلے ہوے جھولے شاہ کے جینز سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیے۔ اُنہیں لباس ، چال چلن ، رنگ ڈھنگ اور وضعداری میں فرسودہ ہندستانی کلچر کو خیر باد کہہ کر جلد از جلد جدید امریکی ٹرینڈز کو اپنا نے کی ضرورت ہے۔ اور پھر یہ حضرات گھوڑے پر سوار چاند تاروں میں کھوئے رہتے ہیں۔ بس اُن کے ذہن میں یہ بھوت سوار رہتا ہے کہ کس طرح ہندوستان جاکر گھوڑے پر بیٹھ کر اپنی کزن سے شادی کر لیں۔ اور پھر اُن کے سوچنے کا انداز بھی انتہائی احمقانہ ہوتا ہے۔ ایک جانب وہ دین و دنیا کی باتیں کرتے ہیں، اور دوسری جانب وہ گرین کارڈ کے حصول کیلئے شادی کرنے کے خواہاں ہیں ۔ اُن کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی حجابن ہو، اور اُس کے ساتھ ساتھ کم از کم 80 ہزار ڈالر سالانہ کماتی ہو ، دُبلی پتلی اور رنگ گورا ہو۔ سونے پر سہاگا یہ کہ وہ امریکا کے کسی گا¶ں دیہات میں میں آئی ٹی کی جاب کر رہے ہوتے ہیں،لیکن اُن کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ شادی کے بعد لڑکی اپنے گھر ، اپنی سہیلیوں ، اپنی جاب اور اپنے کیرئیر کو خیر باد کہہ کر اُسی مویشی خانہ میں منتقل ہو جائے، جہاں نہ اُسے اپنی فیلڈ میں کسی ملازمت ملنے کی کوئی امید ہو ، اور نہ ہی مناسب رہنے سہنے کی کوئی ضمانت۔ اِنڈین ایتھنک کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ایسی لڑکی سے شادی کرنی چاہیے جو کھانا پکا سکے اور گھریلو کام کاج کرسکے۔ بالفاظ دیگر گھریلو ملازمہ ہو۔ اِن نوجوانوں کو لڑکیوں سے باتیں کرنے میں بھی شرم آتی ہے۔ اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ بس اُنکے والدین رشتہ پکّا کر دیں ، اور وہ سہاگ رات میں جاکر لڑ کی کا گھونگٹ اٹھا دیں۔ شادی کے پروپوزل کیلئے اُنکا پروفائل بھی مضحکہ خیز ہوتا ہے، جس میں اُن کے بہن بھائیوں کے علاوہ ماموں اور خالو کے کوائف کا بھی اندراج ہوتا ہے۔ اور پھر بیچاری لڑکی کیلئے اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ اُس کی ساری قربانیاں رائیگاں نہیں جائیگی، کیونکہ اُن کے شوہر کے سر پر وہی اِنڈین ایتھنک کا بھوت منڈ لاتا رہتا ہے۔ اُس کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہوتی
ہے کہ کس طرح وہ پھر گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے کزن سے شادی کرلے۔ کیونکہ متعدد مرتبہ ایسے واقعات برطانیہ اور امریکا میںظہور پذیر ہوے ہیں کہ لڑکی نے اعتبار کرکے ہندوستانی لڑکے سے شادی کر لی، اپنا گھر بسایا، بچے ہوگئے اور پھر اُسکا شوہر اچانک لاپتہ ہوگیا۔ بعض لڑکی نے اِس سانحہ کو اﷲ تعالی پر چھوڑ دیا اور بعض نے اپنے شوہر کو تلاش کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ ہندوستان میں عورتوں کی تنظیموں نے اُس کی بھر پور مدد کی ۔ شوہر صاحب کو کرناٹک یا چنائی کے شہر سے بازیاب کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ موصوف امروز فردا میں دوسری شادی کرنے والے تھے ، جبکہ پہلی ہی شادی کا معاملہ رفع دفع نہیں ہوا تھا۔
بہرکیف میں نے اپنے دوست ہمایون مرزا کو دوبارہ کال کرکے یہ خوشخبری سنا دی کہ اُنکے صاحبزادے جن کے پاس H-1 ویزا ہے ، وہ امریکا واپس آسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم سبھوں کو علم ہے کہ امریکی حکومت نے H-1 اور H-2B پر پہلے سے عائد 60 دِن کی پابندی پر مزید رواں سال کے آخر تک توسیع کر دی ہے۔ اِسکے علاوہ H-4 ، J اور Lویزا کے اجراءکو بھی اِس سال کے آخر تک روک دیا گیا ہے۔ یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس سے متاثر امریکی معشیت اور امریکی ورک فورس کے تحفظ کیلئے اٹھایا ہے۔ امریکی حکومت ہر سال 85 ہزار H-1B ویزا کا اجرا کرتی ہے ، جس میں 65
ہزار ویزا سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے اعلی تجربہ کار غیر ملکیوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے ، جبکہ 20 ہزار ویزا اُن لوگوں کا دیا جاتا ہے جو امریکی یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہو۔
اِن تمام ویزوں میں سے 70 فیصد H-1B بھارت غصب کر لیتا ہے۔ امریکا میں ہزاروں کی تعداد میں بھارتی باشندے جن میں H-1 ویزا رکھنے والوں کی اکثریت ہے ، گرین کارڈ کیلئے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ تاہم اِن ویزوں کا اجراءاب لاٹری کی بجائے تعلیمی صلاحیت کی بنیاد پر کیا جائیگا۔
٭٭٭