تین چور ایک واردات !!!

0
112
حیدر علی
حیدر علی

درخت کے سائے میں منٹو نے کچھ نقل و حرکت محسوس کی، فیصل آباد کے مضافات میں کالی حویلی کی موجودگی سے وہاں کا کون سا باسی آشنا نہ تھا، ہر ایک کے ذہن میں یہی بات مرتسم تھی کہ یہ حویلی نہیں بلکہ پاکستان کے خزانے کا مرکزہے، منٹو خود ہفتوں سے اُس حویلی کی ریکی کرنے میں منہمک تھا تاکہ وہاں واردات کر سکے لیکن ہر مرتبہ اُسے حویلی کے گرد و نواح میں کچھ پُراسرار چیزیں متحرک نظر آئیں جس سے وہ شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا تھا،اِس مرتبہ بھی اچانک اُسے پشت سے سرگوشی کی کچھ آواز سنائی دی ، کوئی اُسے مخاطب ہو کر کہہ رہا تھاکہ ” میں چور ہوں، میرا نام ماکھی ہے ۔ میرے آباؤاجداد بھی چور تھے، میں تھر پارکر سے کالی حویلی میں واردات کیلئے یہاں آیا ہوں ، کیونکہ سندھ کے لوگ کہتے ہیں کہ کالی حویلی میں وہ نوادرات مدفن ہیں جو سارے برصغیر ہندو پاک میں نہیں، میری بستی کے سارے لوگ چور ہیں ، اُنہیں واردات کرنے یا ریکی لگانے کا بہت تجربہ ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اِس حویلی کے ساتھ ساتھ تمہاری بھی نگرانی کرتا رہا ہوں ، اور چند دِن بعد ہی اِس نتیجے پر پہنچ گیا کہ تم بھی میری طرح چور ہو لیکن یہ ہمارا پیشہ ہے ،ہم حکومت میں ملازمت کی یا گھر میں بیٹھے رہے ، لیکن واردات کرنے کا شوق ہمارے دِل ودماغ میں کوٹ کوٹ کر بھرا رہتا ہے”منٹو سہم کر رہ گیا تھا، اُس نے دبے ہوئے الفاظ میں کہا کہ ”میرا تعلق پنجاب سے ہے، اِسکا مطلب یہ نہیں کہ چوری کرنا میرے بس کی بات نہیں، میرے بزرگ چوری کی ہوئی رقم کے ساتھ ملک سے فرار ہوگئے ہیںاور ہم لوگ اُنہیں این آر او دلوانے کی کوشش کر رہے ہیںاگر تم سمجھتے ہو کہ ہم دونوں کی مشترکہ کوششوں سے کالی حویلی میں واردات کرنے میں کامیاب ہوجائینگے تو چشم ما روشن دِل ماشاد لیکن یاد رکھو ہم چور ہیں ڈاکو نہیں . چور اسلحہ کا استعمال چوری کرتے وقت نہیں کرتا بلکہ خاموشی سے جائے وقوع میں داخل ہوتا ہے اور مال و اسباب اکھٹا کرنے کے بعد رفو چکر ہوجاتا ہے۔ ذرا برابر تم نے غلطی کی تو قتل اور دہشت گردی کا مقدمہ تمہارے خلاف درج ہو سکتا ہے، اِن دنوں پولیس تھانیدار سے زیادہ اخبار والے جرائم کی سرکوبی کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں کیونکہ دوسری خبریں اُنہیں مہیا نہیں ہوتیں اور لوگ اُس پر کوئی توجہ بھی نہیں دیتے ” ”اِسی لئے تو بھائی! میں کہتا ہوں کہ ہمیں مولوی ترمذی نقش بندی کی خدمات حاصل کرنی چاہئے،وہ جادو ٹونا کے ذریعہ گھر کے مکین کو مدہوش کر دیتے ہیں، میں اُن کا مرید ہوں، ہمارے سندھ میں ہر کوئی کسی پیر یا عالم کا مرید ہوتا ہے اور اُس کا بزرگ اُس کے لئے دعائیں کرتا ہے، آیا وہ دعا چوری کرنے میں کامیابی کی ہو تی ہے یا تاوان کی رقم حاصل کرنے کی ہو.” تھر پارکر کے چور نے کہا آئندہ کی میٹنگ میں مولوی ترمذی بھی شامل ہوگئے ، مولوی ترمذی کا تعلق وزیرآباد ، صوبہ پختونخواہ سے تھا اِسی کے ساتھ چوروں کی تعداد تین ہوگئیں، میٹنگ کے ایجنڈے میں اِس موضوع پر بحث ہونی تھی کہ آیا پاکستان کے آئین میں نظریہ ضرورت کے تحت چوری کرنا جائز ہوسکتا ہے اگر جائز ہوسکتا ہے تو کالی حویلی میں داخل ہونے کیلئے فوج کی امداد حاصل کرنی چاہئے یا نہیں،مولوی ترمذی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اِس مسئلے میں زیادہ اُلجھنے کی ضرورت نہیں، وہ کالی حویلی میں
بحیثیت پیر داخل ہوسکتے ہیں ، اور پھر اُن دونوں کیلئے بھی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔مولوی ترمذی کچھ ورد کرتے ہوے کالی حویلی کے آہنی دروازے کو کھٹکھٹایا. دروازے پر تعینات محافظ کو اُنہوں نے بتایا کہ وہ پیران پیر ہیں ، اور اُنہیں بشارت ہوئی ہے کہ اِس کوٹھی کے مکین کا ستارہ گردش میں ہے . وہ ایسے حالات میں مداخلت کرکے کوٹھی کے مکین کو پریشانیوں سے بچاسکتے ہیں۔
کوٹھی کا مالک دوڑا دوڑا اُن کے پاس آیا اور کہا کہ واقعی میں وہ بہت زیادہ مظلوم ہے. روزانہ ایف آئی اے اور ایف بی آر والے اُس کی کوٹھی پر چھاپہ مارتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ اُس نے منی لانڈرنگ کی ہے ، حالانکہ اُس کے پاس نئی گاڑی خریدنے کی رقم تک نہیں ہے، اِسلئے وہ چوری کی گاڑی کو خریدتا ہے۔مولوی ترمذی نے استفسار کیا کہ” وہ چھپے ہوے خزانے کہاں ہیںجن کے بارے میں سارے شہر میں اتنا شورغوغا ہے؟”کوٹھی کے مالک نے جواب دیا کہ وہ افواہیں تو اُس نے صرف اِس لئے پھیلائی ہے کہ اُسے آئندہ انتخاب میں کسی پارٹی کی ٹکٹ مل جائے. ” مولوی ترمذی نے کہا کہ ٹھیک ہے وہ اپنے عمل کے ذریعہ ساری باتوں کا پتا چلا لینگے.مولوی ترمذی نے اپنے دو چور ساتھیوں کو بھی اپنی مدد کیلئے اندر بلوا لیا۔جمعہ کی صبح تینوںچور حویلی میں واقع تمام الماریوں اور سوٹ کیس کی تلاشی لینی شروع کردی ، لیکن اُنہیں سوٹ کیس میں صرف پتھر کے ڈھیلے اور الماری میں شہتیر کے ٹکڑے ملے البتہ ایک محراب پر ایک چراغ روشن نظر آیاجس سے سرخ روشنی منورہورہی تھی۔ چوروں کو وہ چراغ بھا گیا، مولوی ترمذی نے کہا کہ یہ یاقوت ہے جس کی قیمت اربوں روپے تک ہوسکتی ہے لیکن تھر پارکر کے چور نے دعویٰ کیا کہ اُس یاقوت کا مالک وہ ہے کیونکہ اُسی نے اِس واردات کی پلاننگ کی تھی۔ فیصل آباد کے چور نے مداخلت
کرتے ہوئے کہا کہ کالی حویلی کی ریکی وہ کیا کرتا تھا ، اِسلئے وہ اِس یاقوت کا حقدارہے۔ وہ اِسے حاصل کرکے برطانیہ روانہ ہوجائیگا لیکن اچانک مولوی ترمذی اُن دونوں چور کے سر پہ لوہے کی سلاخ سے ایک زوردار ضرب لگائی ، اِسی درمیان کالی حویلی کا مالک اپنے ملازموں کے ساتھ موقع واردات پر پہنچ گیا ، اُس نے مولوی ترمذی کے سر پر اپنے بندوق سے وار کرتے ہوے کہا کہ ” یہی وجہ ہے کہ تین چور کبھی بھی آسودہ نہیں ہوتے . وہ ہمیشہ جھوٹ اور ریا کاری کے تابعدار ہوجاتے ہیں”

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here