کنیز بتول صاحبہ کا تعلق سرگودھا سے ہے۔ احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر ہارون الرشید جیسے نابغ روزگار بھی اسی مردم خیز سرزمین نے پیدا کئے۔ کنیز بتول اسی گلستانِ علم و ادب کا گلِ صد رنگ ہیں۔ وہ شاعرہ، کالم نویس اور افسانہ نگار ہیں۔ قدرت نے انہیں فکری ، تنقیدی ، تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ان کے کالم روحانی، مذہبی ، اصلاحی، اخلاقی، نفسیاتی ، سماجی اور سیاسی بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔ وہ اپنے کالموں میں بکثرت قرآنی آیات کو نقل کرتی ہیں جو ان کی قرآن فہمی کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے احادیث ، اقوالِ دانشمندانِ اسلامی اور علامہ اقبال کے اشعار کو زینتِ مضامین بنایا ہے۔ ان کے کالموں کا مجموعہ بعنوان دستکِ درِ مقفل حال ہی میں چھپ کر اہلِ دین و دانش سے بھر پور داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔ انہوں نے واٹس ایپ پر یہ کتاب مجھے بھیجی۔ یہ اتنی علمی اور ادبی تصنیف ہے کہ اس کی ایک ایک سطر باعثِ حرزِ جاں اور تسکینِ قلبِ تپاں ہوئی۔ وہ جہاد بالقلم کر رہی ہیں۔ ان کی جدید اور قدیم علوم اور ادبیات پر گہری نظر ہے۔ کتاب اصلاحی پہلو کے ساتھ دلچسپ علمی اور ادبی دستاویز ہے۔ کہیں احساس نہیں ہوتا کہ کارِ فضیحت و نصیحت کا شکار ہیں۔ اردو ادب میں مولانا الطاف حسین حالی، سر سید احمد خان اور ڈپٹی نذیر احمد کی اصلاحی تحریریں آج بھی سرمای اہلِ فکر و نظر ہیں۔ کنیز بتول کے مضامین مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہیں۔ مغربی ادبی نقاد ڈاکٹر سیمول جانسن ( Dr. Samual Johnson) ادب کو اصلاحِ معاشرہ کے لئے ضروری گردانتے ہیں ۔ جبکہ فلپ سڈنی ( Philip Sidney) ادب کو راحت و مسرتِ دل کاشاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث ہمارے ادبی تنقید کا بھی حصہ ہے۔ کنیز بتول ادب برائے اصلاحِ معاشرہ، تزکی نفس، تصفی قلب ، اسلامی نظام کے قیام اور انقلابِ محرومین و مستضعفین کی زبردست نقیب ہیں۔دستکِ درِ مقفل کتاب کا عنوان ایک فکر انگیز استعارہ ہے۔ قفلِ زدہ در کو دستک سے کھولنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔ وہ درِ مقفل کو کھولنے کے لیے کلید کی تلاش میں ہیں۔ علامہ اقبال نے لکھا تھا کہ درِ دنیا کو رسول اللہ نے کلیدِ دین سے کھولا- از کلیدِ دیں درِ دنیا گشاد یہ علامہ اقبال کا بارگاہِ رسالت میں نذرانہ ہے۔ کنیز بتول بھی مسائلِ زندگی کا حل قرآن مجید میں تلاش کرتی ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام اور روس کے اشتراکی نظام کو رد کرتے ہوئے کہا تھا۔بر خور از قرآں اگر خواہی ثبات در ضمیرش دیدہ ام آبِ حیات بزبانِ اقبال بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل کی تمنا کنیز بتول کے دل میں شعل جوالہ بن چکی ہے۔ان کے کالموں میں جاگیر داری ، سرمایہ داری ، آمریت ، ملائیت ، فرقہ بازی ، شیخیت اور سیاستِ پاکستان پر سخت تنقید ملتی ہے۔ وہ موجودہ اور مروجہ نظامِ زور و زر کو یکسر مسترد کرتی ہیں اور نظامِ عدل و مساوات کے قیام کے لئے عملی تجاویز بھی دیتی ہیں جو بات ان کی فکری بلاغت و بلوغت کی غماز ہے۔ ان کی رائے ہے کہ ہماری مسجد تبلیغِ اسلام کی بجائے فتنہ و فساد کے مراکز بن چکی ہیں۔ فرقہ بندی نے ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر دہا ہے اور مذہب کو ذریع معاش بنا دیا گیا ہے۔ لہذا حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ تمام مسالک کی مساجد کو قومی تحویل میں لیا جائے اور تفہیمِ ِ اسلام رکھنے والے علما اور مذہبی دانشوروں کو مساجد میں امام مقرر کیا جائے۔ وہ فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے ملائیت کے خاتمے کی خواستگار ہیں۔اسی طرح وہ جاگیر داری کے خاتمے کو پاکستانی معیشت اور سیاست کو لازم قرار دیتی ہیں۔ ان کی تحریر حبس زدہ فکری ماحول میں بانگِ درا ہے۔ آواز انقلاب ہے۔ نویدِ بہار ہے۔ اِس عالمِ کہنہ کو عالمِ جواں میں بدلنے کے لئے دستکِ درِ مقفل کی ضرورت ہے تاکہ ہم کشتگانِ زندگی اور ستم کیشانِ زمانہ حافظ شیرازی کے ہمدم و ہمنوا ہو کر پکار سکیں۔
نفسِ بادِ صبا مشک فشاں خواہد شد
عالمِ پیِر دگر بارہ جواں خواہد شد
٭٭٭