اپریل کا مہینہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ریکارڈ ساز واقعات و اقدامات کے باعث کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ عمران مخالف سیاسی گروہ کی سرگرمیاں یوں تو تبدیلی حکومت کے آغاز سے ہی جاری تھیں لیکن اس ماہ جو کچھ ہوا وہ بہت سی جہات میں نئی تاریخ بنا۔ پہلی بار ملک کے منتخب وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، یا کرائی گئی اور اس میں ریاست کے جوڈیشل اداروں یا فیصلہ سازوں کا کیا کردار رہا یہ آنیوالا مؤرخ طے کریگا تاہم یہ امر بھی ایک تاریخ بنا گیا کہ باپ ملک کا وزیراعظم بنا اور بیٹا ملک کی سب سے زیادہ آبادی والے صوبے کا وزیراعلیٰ منتخب ہوا یا کرایا گیا۔ دنیا بھر کے جمہوری کسی بھی ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، نہ ہی کوئی ایسی مثال سامنے ہے کہ ملک کا وزیراعظم اور سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ دونوں ہی کرپشن کے الزام میں ضمانت پر رہا ہوں اور فرد جرم کا معاملہ بوجوہ پینڈنگ میں ہو، تاریخ تو یہ بھی بنی ہے کہ پارلیمنٹ سے عدم اعتماد پرمعزول وزیراعظم عوام کی پارلیمنٹ میں مقبولیت کے عروج پر ہو اور اس اقدام پر عوام کی نہ صرف وطن عزیز میں بلکہ دنیابھر میں اس کیخلاف مزاحمت تاریخی احتجاج اور مظاہرے ہوں۔ اسلام آباد، پشاور اور کراچی میں کپتان کے حق میں احتجاجی جلسوں سے ملک کی سیاسی تاریخ میں جو ریکارڈ بنے ہیں، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جہاں تک عمران کے حق میں مظاہروں کی بات ہے تو پاکستان کا کوئی شہر اور قصبہ نہیں جہاں عوام کا سمندر احتجاج کناں نہ ہوا ہو، صرف یہی نہیں دنیا کے اُن تمام ممالک میں جہاں پاکستانی مقیم ہیں مظاہروں اور احتجاج کے تاریخی مظاہر سامنے آئے ہیں اور کپتان کے حق میں نیز پاکستان کیخلاف عالمی سازش میں قائم ہونیوالی امپورٹڈ حکومت کیخلاف عوام کا سیل رواں نظر آتا ہے۔ یہاں شکاگو میں اتوار کے روز عوامی احتجاج اپنی جگہ ایک ریکارڈ تھا، یوں محسوس ہوتا تھا گویا ریاست کی ساری پاکستانی کمیونٹی بالخصوص نوجوان اس احتجاج میں سرتاپہ عمران خان کیساتھ اس نا انصافی کیخلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی تاریخ کا ایک ریکارڈ تو یہ بھی ہے کہ بیک وقت 123 پارلیمانی ارکان مستعفی ہو چکے ہیں اور اس کے باوجود ہنگو کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کا امیدوار فتح یاب ہوا ہے۔ یہ اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ عمران خان اب بھی عوام کا مقبول ترین لیڈر ہے۔
ہم اپنے گزشتہ کئی کالموں میں اظہار کرتے رہے ہیں کہ عمران خان کو اگر زبردستی اقتدار سے نکالا گیا تو مزید مضبوط ہو کر سامنے آئیگا اور نہ صرف مخالفین بلکہ نظام کیلئے بھی شمشیر بے نیام بن جائیگا۔ ہم اپنے ایک گزشتہ کالم میں یہ بھی عرض کر چکے ہیں کہ حالات کی مزید خرابی نہ صرف جمہوری نظام کیلئے خطرے کا سبب بن سکتی ہے بلکہ ملک بھر میں انارکی اور خانہ جنگی کا مؤجب بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مخالفت، تفریق اور دشمنی کا بُھوت صرف سیاسی اُفق پر ہی نہیں بلکہ شہر شہر، قریہ قریہ اور اداروں کے درمیان سر چڑھ کر ناچ رہا ہے۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مار دھاڑ اور آئین شکنی کے واقعات نے عوام کے منتخب نمائندوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے وہیں سیاسی، ریاستی و عدالتی اداروں کے درمیان نزاعی بیانوں اور اقدامات سے ایسے منظر نامے کی بھی عکاسی ہو رہی ہے جہاں کسی بھی وقت کوئی انہونی ہو سکتی ہے۔ لیٹر اسکینڈل کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان سازش اور مداخلت کا بیانیہ، نئی حکومت کی ساجھے کی ہنڈیا میں دراڑیں، اے این پی اور متحدہ کا کابینہ میں اشتراک سے انکار، اختر مینگل کا فائرنگ پر احتجاج اور تحقیق کے نتائج تک کابینہ میں شمولیت سے اغراض اور صدر پاکستان کا وفاقی کابینہ، گورنر پنجاب کا صوبائی کابینہ سے حلف پر انکار اس امر کی نشاندہی ہے کہ جمہوری مراحل کی تکمیل کٹھن مرحلہ ہے۔
حالات کی سنگینی میں اضافہ جہاں عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے حوالے سے جلسوں میں تحفظات و شکایت کے ناطے سے نظر آرہا ہے وہیں آرمی چیف کے لاہور گیریژن میں خطاب کے حوالے سے پیش آمدہ حالات کی پیشگوئی کی آگاہی بھی دے رہا ہے۔ دوسری جانب عدلیہ کے حوالے سے بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ رات بارہ بجے عدالتوں کا کُھلنا اور عمران خان کا کراچی جلسے میں شکوہ اس نکتے کو عوام میں اُجاگر کر رہا ہے کہ سزائے موت پانیوالے مجرم کو دس سال بعد بے گناہ قرار دینے والی عدلیہ کو عمران خان کو ہٹانے کی کیا جلدی تھی۔ بات یہیں تک نہیں بلکہ عمران اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لیٹر اسکینڈل پر سازش یا مداخلت کا بیانیہ بیرون ملک خارجی اثرات کے برعکس اندرونی طور پر سیاسی متنازعہ بیانیہ بن کر زیادہ نزاعی بن چکا ہے۔ عمران خان جو اس وقت عوام میں اپنی مقبولیت کی انتہاء پر ہیں اس بیانیہ کو بالکل اسی طرح سیاسی بیانیہ بنانے پر فعال ہیں جس طرح ماضی میں مذہبی یا بھارت مخالف بیانیہ سیاست میں کامیابی کیلئے استعمال کیا جاتا تھا تاہم یہ بیانیہ گزشتہ بیانیوں سے زیادہ مضبوط ہے کہ ماضی میں ایسے ہی ایک ایشو پر (امریکہ کے حوالے سے) پاکستان کے سابق وزیر اعظم بھٹو شہید کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا اور اس میں نہ صرف اسٹیبلشمنٹ بلکہ بعدازاں عدلیہ کا کردار بھی واضح تھا۔
دیکھا جائے تو موجودہ حالات 1977ء کے حالات سے بہت مختلف نہیں لگتے۔ اس وقت بھٹو کے خلاف پی این اے تھی آج عمران کیخلاف پی ڈی ایم ہے، فرق یہ ہے کہ اس وقت فریقین کے درمیان معاملات طے پا جانے کے بعد شب خُون مارا گیا تھا اور مارشل لاء لگا تھا۔ اب حالات یہ ہیں کہ فوج کا واضح مؤقف ہے کہ مارشل لاء کسی صورت نہیں لگے گا۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کی حکومت بھی لنگڑی لُولی ہی بن گئی ہے، کتنے عرصے کیلئے اس کا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ حکومت بنتے ہی اب پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمن اور دیگر اتحادی رہنما جلد انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں گویا وہ عمران کے اسی مطالبہ پر آگئے ہیں کہ انتخابات جس قدر جلد ہو سکیں کروائے جائیں۔ آرمی چیف کا یہ انتباہ بھی خاص معانی کا حامل ہے کہ عوام فوج کی طاقت کی ضمانت ہیں، عوام میں اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بدگمانی نہ پھیلائی جائے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں اور ان کے پروردہ میڈیا اور سوشل میڈیا نے سارے معاشرے میں نفرت و عناد کا وہ زہر گھول دیا کہ ہر شہر، گلی، محلہ گھر حتیٰ کہ آپس کے رشتے بھی سیاسی پراگندگی میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ خدانخواستہ اگر حالات یونہی رہے اور ہمارے سیاسی زعماء و راہنمائوں نے معاشرے کی اپنے مفاد میں تقسیم کی روش کو نہ چھوڑا تو مستقبل صرف فاشزم اور بحرانوں سے ہی عبارت رہے گا۔ معاشرتی انتشار اور انارکی کے خاتمے کا بہتر حل سیاستدانوں میں تحمل، برداشت اور فوری و شفاف انتخابات میں ہی ہے۔ دیکھنا ہے کہ بگاڑ و افراتفری کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
٭٭٭