اجتماعی تبدیلی!!!

0
521
عامر بیگ

عامر بیگ

آفس ڈپو سے اپنے آفس کے لیے کچھ سٹیشنری اور ایک موڈم لیکر آفس پہنچا جیسے ہی پرس نکالتے ہوئے بلنگ سلپ پر نظر پڑی تو دیکھا کہ اس میں موڈم کی قیمت شامل ہی نہیں ہے ،واپس بھاگا لائن میں لگا اسی لڑکی کو جس نے چارج کیا تھا کہا کہ آپ موڈم کی بلنگ کرنا بھول گئی ہیں وہ حیران ہوئی، کہنے لگی جب تم نکل گئے تھے، گھر پہنچ چکے تھے تو پھر الٹے قدموں واپس آنے کی کیا ضرورت تھی تم یہ اپنے پاس بھی تو رکھ سکتے تھے گفٹ سمجھ کر، قیمت بھی معمولی نہیں ،میں نے کہا جس چیز کی میں نے قیمت ادا نہیں کی وہ میرے لیے مناسب نہیں کہ میں اسے استعمال میں لاو¿ں۔ میں اسے چوری ہی تصور کروں گا، اس نے تھینک یو کے ساتھ کارڈ سوائپ کرنے کو کہا ،میرا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کا مقصد یہاں اپنی اچھائی بیان کرنا ہر گز نہیں ہے مگر کیوں نہ کی جائے جب ہم اپنی اور دوسروں کی برائیاں مزے لے لے کر دوستوں ،رشتہ داروں سے شیئر کرتے ہیں، بیک بائٹنگ کرتے ہیں، فون پر دوستوں ،رشتہ داروں اور سیاسی لیڈروں کی برائیاں کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر طرح طرح کی پوسٹیں لگاتے ہیں ، اپنے بائیں جانب کے فرشتے کو ہمہ وقت کام میں مصروف رکھتے ہیں تو کیا مزائقہ ہے اسے تھوڑی سی فرصت کے لمحات بھی انجوائے کریں ،ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے دوستوں رشتہ داروں کی اچھی اچھی باتیں کسی دوسرے دوست یا عزیز سے جلے بغیر شیئر کرتے ہیں کہ دیکھو کتنا اچھا ہے اس نے یہ اچھا کام کیا ہے، ڈیٹیل بتائی کبھی، ہمیشہ برائی کی ہی باتیں ہوتی ہیں۔ دیکھا جائے تو ہم سب ملزم ہیں جو چوروں کی چوری پر منہ سے ایک لفظ نہیں نکالتے بلکہ شریک جرم ہیں پردہ ڈالتے ہیں کچھ سیاسی ورکرز تو بڑھ چڑھ کر اپنے اپنے لیڈرز کی ہر بری بات کو ڈیفینڈ کرتے ہیں کیا کبھی مسلم لیگ ن کے کسی ورکر نے ان کے تاحیات محبوب قائد کی اس بات کا نوٹس لیا ،کہ کیا ہوا جو “ہمارے اثاثے ہماری اِنکم سے زیادہ ہیں” کیا کبھی کسی نے بولا کہ ایان علی اور بلاول کی ایئر ٹکٹیں ایک ہی پاپڑ والے کے اکاو¿نٹ سے لی گئیں تھیں “ چھوٹے لیول پر آجائیں ناپ تول میں کمی کرتے ہیں کوئی آواز نہیں اٹھاتا جھوٹ فریب دغا اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت تک کھا جاتے ہیں پر کوئی نہیں بولتا۔ جعلی ادویات ،جعلی ڈگریاں ،جعلی لائسنس ہر طرح کی جعلسازی کرتے ہیں کبھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی ،الٹا کہتے ہیں نکالوا نہیں ،آدھی تنخواہ پر رکھ لو، کیا کسی اینکر نے اپنی ہی کہی ہو ئی جھوٹی بات کے بارے میں بات کی، احتجاج کیا ،کبھی اس نے اعتراف کیا کہ اس نے پراپیگنڈا کرنے کی کیا قیمت وصول کی ،کیا کسی تاجر نے اپنے گاہک کو یہ بتایا کہ اس نے زخیرہ اندوزی کی ہوئی ہے یا جھوٹ بول کر اور دگنی تگنی قیمت پر چیز بیچی ہے ۔کیا ڈاکٹر وکیل ججز اپنے اپنے پیشے سے انصاف کرتے ہیں ،کیا اس نا انصافی پر ہم خود یا کسی اور نے اس حد تک آواز اٹھائی کہ کہیں شنوائی ہو سکے نہیں تو پھر معاشرہ کیسے سدھرے گا ہمیں آواز اٹھا نی ہو گی پہلے اپنے آپ کو درست کرنا ہوگا پھر اجتماعی تبدیلی آئے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here