بٹگرام (پاکستان نیوز) مقامی صحافی سید امتیاز شیرازی نے بٹگرام میں پیش آنے والے چیئر لفٹ واقعہ کے حوالے سے بتایا کہ میرا تعلق چونکہ بٹگرام سے ہے اس لیے آج کے واقعے کا اصل منظرنامہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں, الائی ضلع بٹگرام کی تحصیل ہے جس کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہے, یہ ایک دور افتادہ اور پہاڑی علاقہ ہے جو کہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن سہولیات زندگی خاص کر سڑکیں اور پل نہ ہونے کی بنا پر یہاں کے باشندے دو پہاڑوں کے درمیان اس طرح کے چیئر لفٹ لگا کر اس کے زریعے سفر کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات کی چیزیں سپلائی کرتے ہیں, اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک گھنٹوں کا سفر چند منٹوں میں کٹ جاتا ہے دوسرا جب بارش کے وقت ندیوں میں طغیانی کی وجہ سے زمینی راستے بند ہوجاتے ہیں تو لوگ انہی چیئر لفٹ کے زریعے آمد و رفت کرتے ہیں,آج صبح سات بجے جب معمول کے مطابق یہ بچے اپنے استاد کے ساتھ چیئر لفٹ پر ایک پہاڑ سے دوسری پہاڑ پر موجود اپنے سکول جارہے تھے تو بدقسمتی سے چیئر لفٹ کی دو رسیاں ایک سات ٹوٹ گئیں اور چیئر لفٹ درمیان میں پھنس کر رہ گئی, نیچھے تقریبا ایک ہزار فٹ کی گہرائی تھی, بھلا ہو مقامی افراد اور صحافیوں کا جنہوں نے ان پھنسے ہوئے افراد کی بچا کے لیے ایک ساتھ بھرپور آواز اٹھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی، اس سے پہلے بھی ایسے واقعات یہاں رونما ہوچکے ہیں جس میں ہمیشہ مقامی لوگ ہی اپنی مدد آپ کے تحت پھنسے ہوئے لوگوں کو بچا لیتے ہیں لیکن اس بار سوشل میڈیا اور مقامی صحافیوں نے ہیلی کاپٹر کے لیے بھرپور مہم چلائی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ان پھنسے ہوئے افراد کی جانیں نہ صرف فوری بلکہ باآسانی بچائی جاسکیں گی, میڈیا اور سوشل میڈیا پر زبردست کمپئین اور مقامی سیاسی افراد کی کوششوں سے خدا خدا کرکے آخرکار چار گھنٹے بعد تین ریسکیو ہیلی کاپٹرز موقع پر پہنچ گئے, پہلی مرتبہ کوشش کرنے پر ریسکیو ٹیم کو کچھ خاص کامیابی نہ مل سکی اور وہ پھنسے ہوئے لوگوں کو یہ کہہ کر چھوڑ گئے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں وہ بالاکوٹ سے دوسری ٹیم لیکر آئیں گے جو کہ اس کام میں ماہر ہیں, کئی گھنٹے گزرنے کے بعد جب دوسری ٹیم بزریعہ ہیلی کاپٹر پہنچی تو ان کی مہارت بھی دھری کے دھری رہ گئی بڑی کوششوں کے بعد وہ بمشکل ایک ہی بندے کو ریسکیو کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ اتنے میں شام ہوگئی اور اندھیرا چھا گیا, یہ کہہ کر فضائی آپریشن روک دی گئی کہ اب مزید بزریعہ ہیلی کاپٹر ان لوگوں کو ریسکیو نہیں کیا جاسکتا اور یوں دن بھر چکریں کاٹنے والے ہیلی کاپٹرز سات افراد کو موت کی منہ میں چھوڑ کر واپس چلے گئے،مقامی افراد جن میں سے اس کام کے ایکسپرٹ موجود تھے واقع رونما ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی اپنے ساز و سامان سمیت موقع پر پہنچ چکے تھے اور بار بار انتطامیہ سے مطالبہ کررہے تھے کہ وہ باآسانی ان افراد کو ریسکیو کرسکتے ہیں لہذا ان کو اجازت دی جائے لیکن انتظامیہ اور پھنسے ہوئے افراد کے اہل خانہ کے نزدیک ایسا کرنا زیادہ رسکی تھا جس سے نقصان کا خدشہ تھا اس لیے انہوں نے ان افراد کو اجازت نہیں دی، جب ہیلی کاپٹرز واپس چلے گئے تو پھنسے ہوئے افراد کے اہل خانہ اور انتظامیہ کے پاس کوئی دوسرا آپشن باقی نہیں تھا لہذا انہوں نے مقامی نوجوانوں کو اجازت دی کہ وہ مزید پھنسے ہوئے لوگوں کو ریسکیو کریں اور پھر انہوں نے اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ریسکیو آپریشن شروع کیا وہ رسی کے ذریعے چیئر لفٹ تک پہنچے اور وہاں سے ایک ایک کرے باقی افراد کو مخص تین گھنٹوں میں ریسکیو کرنے میں کامیابی حاصل کی، اب اگر کوئی ٹی وی پر بیٹھ کر آپ کو یہ بھاشن دیں کہ ہم نے انتھک محنت, جذبہ حب الوطنی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار ان افراد کی جانیں بچائی ہیں تو ان پر ایک عدد لعنت بھیج کر آگے بڑھیں, اور ہاں اگر خدانخواستہ آئندہ کسی جگہ ایسا حادثہ پیش آئے تو ہیلی کاپٹرز کا انتظار کیے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کی کوشش کیا کریں تاکہ آپ کو سارا دن اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں بیٹھا دیکھ کر اذیت نہ اٹھانی پڑے, یہ ملک اشرافیہ کا ہے اور یہاں کے سارے وسائل انہی لوگوں کی عیاشیوں کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں, ایک عام شہری کی زندگی سنوارنے یا بچانے کا پروگرام یہاں کسی کے پاس نہیں۔