سردار محمد نصراللہ
عمر گزر جاتی ہے زندگی کے معاملات کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی، کورونا کا یہ کمال کے جہاں وہ اپنے وبائی ہاتھوں سے لقمہ¿ اجل بنا رہی ہے وہیں اس نے سوچنے اور سمجھنے کا موقعہ بھی فراہم کر دیا اور اسی اثناءمیں دانہ پانی کا کھیل بھی سمجھ میں آگیا۔ آج چار ماہ سے اوپر مادر وطن اور روزگار، وطن کے درمیان دانہ پانی کی کشمکش میں اُلجھا ہوا ہوں میں تو 3 تاریخ بروز جمعہ اپنی پوری تیاری کےساتھ سامان سفر باندھ کر عزیز و اقارب سے گلے مل کر مادر وطن کو الوداع کہہ کر گوہر علی خان کی گاڑی میں سوار ہو کر علامہ اقبال ایئرپورٹ پہنچالیکن فارسی کی مثل ”مازوچہ خیالم و فلک درچہ خیال“ ہم کس خیال میں ہیں اور آسماں کیا سوچ رہا ہے کہ مُصداق بڑے بے آبرو ہو کر ٹرکش ایئرلائن کے کاﺅنٹر سے واپس لوٹا، ان کا یہ کہنا تھاکہ ابھی امریکہ نے اپنی مٹی کا دروازہ آپ پر نہیں کھولا اور عزیز کہتے ہیں کہ ابھی مادر وطن میں آپ کا دانہ پانی لکھا ہوا ہے خیر اس کو مان لیتے ہیں۔ قدرت کا اپنا ایک نظام ہے اپنا کھیل ہے اس پر کسی کا بس نہیں ابھی ایئرپورٹ سے واپس گھر لوٹا ہی تھا کہ میرے بیٹے نے ایسی خبر گرائی کہ پیروں تلے زمین کیا ایسا لگا کہ پوری دنیا ہل کہ رہ گئی اس نے بتایا کہ آصف فاروقی اب اس جہاں میں نہیں رہا، میں کانپ گیا کہ ابھی کل شام اس کی پھوپھی سے اس کی صحت کی خبر گیری کی تو میری آپا نے بتایا کہ اللہ کے فضل سے اس کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے آصف فاروقی میرے کزن اور محسن کرنل خالد بشیر فاروقی جو جنرل جیلانی کےساتھ ایل ڈی اے یا واسا کے چیئرمین تھے جنرل جیلانی نے تین نوجوانوں کو اپنی کیبنٹ میں رکھنے کیلئے کرنل فاروق صاحب کے پاس ذہنی ٹیسٹ کیلئے بھیجا وہ تین نوجوان جن میں سے ایک کا انتخاب ہونا تھاان میں حامد ناصر چٹھہ، میاں نوازشریف اور یوسف رضا گیلانی تھے کرنل صاحب نے اپنے باس جنرل جیلانی کو رپورٹ پیش کی کہ حامد ناصر چٹھہ بڑا ذہین اور تیز طرار آدمی ہے وہ بڑا حاضر جواب ہے ہمارے ساتھ نہیں چل سکتا۔ دوسرا یوسف رضا گیلانی ذرا نرم خو لیکن سیاسی مزاج رکھتا ہے وقت آنے پر سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ تیسرا شخص نوازشریف ایک گنگ Gung ہے اور یہ ہمارے لئے بڑا مفید ہے لہٰذا اس کی سلیکشن میں اس کا گنگ ہونا بھی طرہ¿ امتیاز ہے۔ آصف فاروقی ان کا بیٹا ہے جو خود ایک کامیاب بزنس مین تھے اس نے باپ دادا کے نام پر نہیں بلکہ اپنا نام اپنی سخت محنت سے بنایا۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا کہ اتنا خوش مزاج بڑے چھوٹے کا ادب کرنےوالا، غریبوں کی مدد کرنے والا میرا بھیتجا اس دنیا میں نہیں رہا ابھی کل کی بات ہے میں اپنے بھائی کرنل خالد کے پاس 1970ءمیں سیالکوٹ میں رہنے کیلئے گیا اس وقت آصف کوئی 45 سال کا تھا سمجھ ہی نہیں آیا کہ کل کتنی جلدی گزر گیا آصف جہاں اپنی والدہ عارفہ فاروقی، رشتہ میں میری بھابھی لیکن رتبہ میں میری ماں کی طرح ایک جواں سال بیٹا دانیال فاروقی، بیٹی، بہن، عالیہ عامر اور پورے خاندان کو سوگوار چھوڑ گیا۔ اللہ پاک اس کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں اس کو اعلیٰ مقام دے۔
جانا تھا ہم سے دور بہانے بنا لئے
اب اتنی دور ہم سے ٹھکانے بنا لئے
آج کل آپ لوگ مائنس ون کا چرچہ سن سن کر تھک گئے ہونگے ،کمال ہے اپنے پیارے اینکروں کا سلیکٹر اور ایکٹرز کا ہر وہ شخص جو حکومتی قدرت رکھتا ہے ان کو احساس بھی نہیں ہے کہ مادر وطن اس وقت چاروں طرف سے اغیار نے گھیرا ہوا ہے اور فضائے گردوں چیخ چیخ کر پکار رہی ہے عنادل باگ کے غافل نہ بھیجیں آشیانوں میں لیکن یہ نوازشریف کو رو رہے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک لفافہ نواز ملک کی پریشانیوں سے بڑا ہے یقین جانئے ایک دو کو چھوڑ کر سب کے سب مائنس ون اور شیخ رشید جیسا آدمی یہ کلیم کرتے نہیں تھکتا کہ وہ 15 مرتبہ وزیر رہاہے لیکن اللہ پاک معاف کرے وہ میرے ملازم شاہد وزیر سے بھی چھوٹا قد رکھتا ہے ان لوگوں کو ادراک ہی نہیں ہو رہا کہ قضائے گردوں میں اُڑنے والے عقاب کیا سوچ رہے ہیں اللہ ان کو ہدایت دے اور دوسری طرف غدار حسین حقانی سی آئی اے اور بھارتی ”را“ کے ملاپ سے آئے دن کسی نہ کسی ودیشی سوکالڈ دانشور کوٹی وی پر بٹھا کر ہماری افواج کی ہرزہ سرائی کر رہا ہے اورہمارے ادارے پتہ نہیں ان کی آنکھ بند ہے یا کھلی ،تماشہ دیکھ رہے کہ وطن کی خاک کیسے اُڑا رہا ہے یہ بدمعاش میں تو سمجھتا ہوں ان لوگوں سے بہتر ہے کہ آپ اپنے دشمن کے د و، تین اینکروں جن میں پروان، شوامی، عارفہ خان، منیر اور راجش کمار کو سن لیں آپ کو بھارت چین پاکستان اور خطہ کی صورتحال سے صحیح آگاہی ہو جائے گی اور آپ کو اپنی رائے قائم کرنے کا بہتر موقعہ ملے گا۔
٭٭٭