ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
میرے ہم وطنو! میرے ہم مکتبو! میرے بھائیو، میری بہنوں!
آجکل ہمارے ہاں جو ایک دوسرے کے خلاف فتووں کا بازار گرم ہے، فتنے عروج پر ہیں،غصے سرد نہیں ہو رہے، ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں، لیگ پُلنگ کا گراف بلند ہو رہا ہے،قوتِ برداشت رہی ہی نہیں، ہر شخص لڑنے کوشاید یہ حکایت کسی قابل ہو !
*انداز بیاں گرچہ کچھ شوخ نہیں ہے۔*شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات**فاعتبروا یا اولی الابصار*ایک آدمی کو غصہ بہت آتا تھا، غصے میں بے قابو ہو کر وہ برُا بھلا کہتا اورجب غصہ اترتا تو اسے پشیمانی ہوتی اور وہ اپنے غصے پر قابو پانا چا ہتا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوتاتھا۔ایک دن اس نے سنا کہ ایک دوسرے گاو¿ں میں ایک عالم رہتا ہے جو لوگوں کے مسائل کے حل بتاتا ہے، اس نے سوچا چلتا ہوں میں بھی اپنا مسئلہ پیش کر کے دیکھتا ہوں، شاید کچھ تدبیر نکل آئے اور اس عذاب سے نجات مل جائے۔
وہ اس عالم کے پاس گیا اور ا±س کو بتایا کہ “مجھے بے حد غصہ آتاہے” عالم نے کہا: “جب تمہیں غصہ آئے تو تم جنگل میں جا کر درخت میں ایک کیل ٹھونک دیا کرو” آدمی نے کہا “یہ کونسا حل ہے ؟” عالم نے کہا: “تم ایسا کرو تو سہی” آخر اس نے یہی کیا اسے جب بھی غصہ آتا، وہ جنگل کی طرف دوڑتا اور تیزی سے کیلیں درخت میں ٹھونکتا جاتا آخر دن گذرتے گئے اسے جب غصہ آتا، وہ یہی عمل دہراتا آخر ایک دن اس کا غصہ کم ہو کر ختم ہو گیا اور اس نے جنگل جانا چھوڑ دیا ،ایک دن وہ دوبارہ عالم کے پاس گیا اور کہا “آپ کی بات پر عمل کر کے میرا غصہ ختم ہو گیا ہے”عالم نے کہا: “مجھے اس جگہ پر لے چلو جہاں تم نے کیلیں ٹھونکی ہیں” وہ دونوں وہاں چلے گئے عالم نے دیکھا کہ ایک درخت تقریباً آدھا کیلوں سے بھرا پڑا ہے ،عالم نے کہا: “اب ان کیلوں کو نکالو” اس نے بہت مشکل سے وہ کیلیں نکال لیں تو دیکھا کہ وہاں چھوٹے بڑے بے شمار سوراخ تھے، عالم نے کہا: “یہ وہ سوراخ ہیں جو تم غصے میں آ کر لوگوں کے دلوں میں کرتے تھے ،دیکھو کیل تو نکل گئے مگر سوراخ باقی رہ گئے ہیں” وہ شخص بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے اللہ اور اس کے بندوں سے معافی مانگی اور اس عالم کا شکریہ ادا کیا جس نے اسے آئینہ دکھایا ۔*الحاصل۔۔ سبق:* ہمیں بھی چاہئے کہ بولتے وقت دیکھ لیا کریں کہ ہم لوگوں کے دلوں میں کہیں کیلیں تو نہیں ٹھونک رہے ہیںاور یاد رہے کہ اگر وہ کیلیں نکل بھی گئیں تو نشان باقی رہ جائیں گے آپس میں بھی نفرتوں کی میخیں نہ گاڑیں اور نہ پراﺅں میںاگر عکس العمل میں اتنی ہی میخیں آپکے جذبات کے شجر میں گڑھ گئیں یا دل میں سوراخ ہونے لگے تو سرواﺅل کیسے ہوگا ؟
عذاب الٰہی الگ ہوگا ،سچ ہے
عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
٭٭٭